جارجیا: تھری ڈی پرنٹر کی مدد ایک دلچسپ روبوٹ بنالیا گیا ہے جو بہت ہی چھوٹا ہے اور اس کے نیچے ٹوتھ برش جیسے ریشے لگے ہیں۔ یہ روبوٹ کسی آواز، ارتعاش یا چھوٹے اسپیکر کی صدا پر آگے بڑھتا ہے۔
روبوٹ کی جسامت صرف دو ملی میٹر ہے یعنی دنیا کی چھوٹی ترین چیونٹی سے بھی چھوٹا ہے۔ اس کے پاؤں پیزوالیکٹرک (داب برق) ایکچوایٹرز ہیں جو تھرتھراہٹ سے سرگرم ہوتے ہیں اور روبوٹ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں یہ اپنی جسامت سے چار گنا فاصلہ طے کرتا ہے۔
اس کے موجدین میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ کی آزادے انصاری بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس روبوٹ کو بہت سارے کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے ٹو فوٹون پولیمرائزیشن لیتھوگرافی (ٹی پی پی) ٹیکنالوجی کے ذریعے عام پالیمر پر پیزوالیکٹرک ایکچوایٹر بنائے ہیں جو برش کے انتہائی باریک بالوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس پر آواز کے ارتعاش اور تھرتھراہٹ ڈالی جائے تو یہ اس کی بدولت چلتا پھرتا ہے اور کسی بیٹری کے بغیر اپنا کام کرسکتا ہے۔
ارتعاش سے اسے کی لچکدار ٹانگیں اوپر اور نیچے حرکت کرتی ہیں اور مائیکروبوٹ چلتا ہے۔ ہر روبوٹ کو اس کے ارتعاش کی بنا پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یوں اس کی رفتار اور کم اور زیادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ آزادے انصاری کے مطابق اس کے پیروں کو خاص زاویے سے موڑا گیا ہے اور یہ تھرتھراہٹ کے لحاظ سے اپنا رخ بدل سکتا ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ مختصروقت میں ہزاروں روبوٹس بنائے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس روبوٹ کو اپنی مرضی کا رخ دیا جاسکے تو اس سے بہت اہم کام لیے جاسکتے ہیں۔ ہر روبوٹ کا وزن صرف 5 ملی گرام ہے۔
آزادے انصاری اور ان کے ساتھیوں نے مائیکروبوٹ کے لیے ایک کھیلنے کا میدان بھی بنایا ہے جہاں بہت سے روبوٹ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب وہ مائیکروبوٹس کو اچھلنے اور تیرنے کے قابل بھی بنارہے ہیں۔ لیکن ابھی یہ روبوٹ صرف تجربہ گاہ میں ہی اچھا کام دکھارہے اور بیرونی دنیا کے ماحول میں انہیں چلانا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
The post آواز اور ارتعاش سے چلنے والی روبوٹ چیونٹی appeared first on ایکسپریس اردو.