گھنے جنگلات سے عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں دو تہائی کمی ممکن

زیورخ: ہم جانتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گرین ہاؤس گیسوں میں سرِ فہرست ہے جو عالمی تپش کی وجہ بن رہی ہے۔ فضا سے اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم یا ختم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔

اب ماہرین نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں اربوں کھربوں درخت لگا کر اب تک انسانوں کی جانب سے جمع ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی خوفناک مقدار کی دوتہائی مقدار کو کم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی کاربن کی مقدار عین وہی تک پہنچ جائے گی جو لگ بھگ ایک صدی قبل تھی۔

لیکن ماہرین نے کہا ہےکہ اتنے بہت سے درخت لگانے کے لیے پورے امریکہ جتنے رقبے پر درخت لگانے ہوں گے تاہم بعض ماہرین نے اس پر شک کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین کا کیال ہے کہ  اتنے بہت سے درخت پوری زمینی فضا سے اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ضرور جذب کرلیں گے جو اس مرحلے پر آجائے گی جو ایک صدی قبل موجود تھی۔ یہ تحقیق سوئزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقع ادارے ای ٹی ایچ کے ماہرین نے کی ہے۔

اس میں پہلی مرتبہ ریاضیاتی طور پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرنے کے لیے کتنے ارب یا کھرب درکار ہوں گے؟

رپورٹ کے شریک مصنف تھامس کرادر نے بتایا کہ آب وہوا میں تبدیلی اور بگڑتے موسموں کے مزاج درست کرنے میں جنگلات بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن اب تک اس کے سائنسی ثبوت نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ جنگلات کی بحالی بخوبی یہ کام کرسکتی ہے۔

اس کے لیے پوری دنیا میں محفوظ شدہ جنگلات کی 80 ہزار تصاویر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ جنگلات برفیلے آرکٹک سے لے کر افریقہ تک موجود ہے۔ تحقیقی مقالے میں ماہرین نے کہا ہے کہ 2 ارب 20 کروڑ درخت لگانے کےلیے صرف 90 کروڑ ہیکٹر زمین درکار ہے۔ اتنے درخت مل کر 205 ارب ٹن کاربن جذب کرسکتے ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ اتنے سارے درخت شہری علاقوں، فصلوں اور کھیتوں کے آس پاس لگائے جاسکتے ہیں جو زرعی جنگلات (ایگروفوریسٹری) کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔

تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا کو اس پر فوری طور پر عمل کرنا ہوگا۔

تاہم دوسری جانب بعض ماہرین نے اس منصوبے پرتنقید کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عالمی شجرکاری بہت مفید عمل ہے لیکن دنیا بہت تیزی سے رکازی ایندھن (فوسل فیول) استعمال کررہی ہے اور اس پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔

The post گھنے جنگلات سے عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں دو تہائی کمی ممکن appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں