غذا جزو بدن کیسے بن سکتی ہے؟

انسان اپنے ساتھیوں کے رنگ  میں ڈھل جاتا ہے (مقولہ)۔ اسی طرح جو خوراک انسان استعمال کرتا ہے، جگر اسے استحالہ (میٹابولزم) کر کے جسم کے رنگ میں تبدیل کردیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ’ کشتہ سونا ‘ یا ’کشتہ چاندی‘  بھی استعمال کیا جائے تو انسان سونا یا چاندی نہیں بن جاتا بلکہ جگر ان اجزاء کے قابلِ ہضم اجزاء کو حیاتین (وٹامن) ، لحمیات (پروٹین) یا شحمیات ( چربی) وغیرہ میں بدل دیتا ہے، اور ناقابلِ ہضم اجزاء کو براہِ براز خارج کردیتا ہے۔

دورِ حاضر میں کئی لوگوں کی شکایت ہے کہ جو خوراک وہ کھاتے ہیں پتا نہیں لگتا کہ کہاں غائب ہوجاتی ہے۔ بعض کی شکایت ہے کہ اتنا کھانا نہیں کھاتے جتنا فربہ ہوگئے ہیں ۔ دراصل ان تمام کیفیات کا دارومدار انسان کے مزاج ، پیشے ، خوراک جو زیادہ پسند کرتے ہیں اور سونے جاگنے پر ہوتا ہے، بعض کی جینیات(جینیٹکس) سے ’فربہ  ‘ یا ’دُبلاپن ‘ کا ادراک ہوتا ہے۔

غذا جزو بدن نہ بننے کے اسباب

اگر مکمل خوراک مثلاً دودھ ، انڈا ، بڑے کا گوشت وغیرہ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں حیاتین، لحمیات و شحمیات کے علاوہ چکنائی، فیٹی ایسڈز، فائبرز اور ریح پیدا کرنے والے کیمیائی اجزاء بھی ملتے ہیں۔ نیز ریح پیدا کرنے والی کیفیات گائے ، بیل، بھینس کے گوشت میں زیادہ ہیں، کیو نکہ ان کے گوشت معدے پر بوجھ  پیدا کرتا ہے ، لہذا اگر انہیں کھانے کے بعد ورزش کیے بغیر سوجائیں تو آنتوں کی تکلیف ہوجاتی ہے اور پیٹ بڑاہوجاتاہے۔ معدہ اس گوشت کے کچھ حصّے کو ہضم کر کے باقی کو آنتوں کی طرف دھکیل دیتا ہے، اور ا ن میں موجود فائبرز اس امر کو آسان بنا دیتے ہیںکہ براہِ براز یہ خوراک خارج ہوسکے۔

جب تک آنتوں میں یہ خوراک غیر ہضم پڑی رہتی ہے،رطوبات ان پر گرتی ہیں۔ اب غذاء کی کیفیت بالکل ایسی ہوجاتی ہے کہ آگ پر پانی تھوڑا تھوڑا گرائیں تو چنگاریاں اُڑتی ہیں ۔ آنتوں میں خوراک کی کیفیت آگ کی طرح گرم ہوجاتی ہے ،کیونکہ اس پر رطوباتِ ہاضمہ اور صفراء گرتا رہتا ہے۔ پھر ہم جب پانی پیتے ہیں تو ریح چنگاری کے مانند پیدا ہوتی ہے، اس لیے قدیم اطباء نے براز کو روکنے سے منع کیا ہے نیز براز زیادہ روکنے سے قبض بھی پیدا ہوجاتی ہے مگر اس براز میں مکمل فضلہ نہیں ہوتا۔ جو اجزاء جگر ہضم نہیں کرسکتا  وہی ہوتا  ہے۔ اگر ورزش مناسب کی جائے تو ہمارے جسم کے اعضاء اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے موجودہ خوراک کا زیادہ حصّہ ہضم کر سکتے ہیں۔

یاد رہیکہ بڑے گوشت میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اسے کم مقدار میں استعمال کے بعد ورزش زیادہ کرنی چاہیے۔ رہے وہ افراد جو جتنا بھی کھائیں دبلے رہتے ہیں ، ایسے اشخاص کا اکثر معدہ خراب ہوتا ہے، اگر نہ بھی خراب ہو تو مزاج گرمی خشکی کی طرف مائل ہوتا ہے، یعنی جو غذاء بھی کھائیں ، خوراک کی رطوبت جسم کی افزائش میں استعمال ہوتی

ہے یا جسم اس کے ساتھ پانی جیساسلوک کر کے براہِ بول خارج کر دیتا ہے۔

ایسا اس وقت ہوتا ہے جب جگر کمزور ہوجاتا ہے، تناسب کے لحاظ سے فربہ لوگوں کو چھوٹے کا گوشت ، کھجور وغیرہ اور جو غذاء مقدار میں کم اور غذائیت میں زیادہ ہو ، استعمال کرنی چاہیے۔ اور لاغر افراد کو چکنائی والی غذائیں استعمال کرنی چاہیے، علاوہ ازیں ایسے افراد کو آلوبخارا، تمر ہندی بھی موزوں ہوتی ہے۔  ورزش ایسے  افراد کو بے حد ہلکی کرنی چاہیے۔ ورزش کے لحاظ سے فربہ اشخاص کو زیادہ جسمانی محنت اور لاغر اشخاص کے لیے محض چہل قدمی موزوں رہتی ہے۔ بعض اشخاص بچپن سے فربہ جسم کے مالک ہوتے ہیں ۔ اگر ان کی جلد پلپلی (نرم) ہو تو جان لینا چاہیے کہ مزاج بلغمی ہے ، ان کے لیے محض گلی کا کھیل کود کافی نہیں رہتا بلکہ نیند تھوڑی لینے کے علاوہ غذاء میں ستو ناشتے میں دینا چاہیے اور غسلکے لیے ٹھنڈا مائل پانی استعما ل کرنا چاہیے بشرطیکہ نزلہ نہ ہو، ان تدابیر سے جسم میں حرارت وخشکی پیدا ہوگی ۔

ایسے بچوں میں حیاتین کی کمی دیکھی گئی ہے اور ان کی یاداشت بھی کمزور ہوتی ہے۔ ان کے برعکس کچھ بچے بچپن سے ہی لاغر ہوتے ہیں ، ایسے بچوں کے لیے کھیل کود بطور ورزش کافی ہے۔ ان کے جسم کو متوسط کرنے کے لیے ان کے دماغی خیالات کا جائزہ ضرور لینا چاہییے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پریشان اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ اگر پریشانی ہو تو صرف اس کا ازالہ  انہیں صحت مند رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے ،بہت جلد جسامت اچھی ہوجاتی ہے۔

اگر پریشانی نہ ہو تو ان کی روزمرہ عادات پر دھیان دیں ، ایسے بچوں کو نیند زیادہ لینی چاہیے، غسل نیم گرم پانی سے کرنا بہتر ہوتا ہے بشرطیکہ نکسیر کا عارضہ نہ ہو ۔ ناشتے میں ان لاغر بچوں کو دیسی گھی سے تیار کردہ پراٹھے ہمراہ دودھ کی لسّی گرم موسم میں مناسب ہیں۔ سرد موسم میں ناشتے میں مرغی کا انڈہ مع پراٹھا موزوں ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کے خون میں وٹامن ڈی کا دھیان رکھنا چاہیے۔ نیز بعض پیشے ایسے ہوتے ہیں جو مزاج میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں مثلاً چولہے کے پاس زیادہ رہنے والے اکثر پتلے اور آنکھ پیلی رہتے ہیں۔ پانی کے پاس کام کرنے والوں کی جلد نرم اور نزلہ و زکام میں جلدی مبتلا ہوتے ہیں۔کھلاڑی زیادہ تر گندمی رنگ والے اورچڑچڑے دیکھے گئے ہیں۔

غذاء کے ذریعے فربہی اور لاغر جسامت کا علاج کیسے ممکن ہے:

1۔ بچپن سے فربہ حضرات کو دن میں ایک بار لیموں کا جوس پینا چاہیے۔

2۔ جوانی یا بلوغت کے بعد فربہ ہونے والے افراد کھجور ہمراہ دودھ جس میں سونف کو جوش دیا گیا ہو استعمال کرتے رہنا چاہیے۔

3۔ بچپن کے لاغر اشخاص کو گائے کا دودھ سونے سے دو گھنٹے پہلے پی لینا موزوں ہے۔

4۔ بلوغت کے بعد لاغر ہونے والے اشخاص کو ناشتے سے پہلے آلو بخارا یا ’جَو‘ کے دلیہ سے ناشتہ کرنا مناسب ہے، کوئی اور ناشتہ بھی کرسکتے ہیں لیکن بعد میں جَو کا دلیہ تناول فرمائیں۔

علاج

فربہ جسم کو پتلا کرنے کے لئے:

طبی نسخہ:  اجوائن  اور سیاہ زیرہ   کھانے کا ایک چمچ  رات کو  ایک گلا س پانی میں بھگو دیں اور صبح نہار منہ پی لیں۔

ایلو پیتھی:  ’  اسٹیٹن‘  گروپ کی ادویہ۔

لاغر جسم کو فربہ کرنے:

طبی نسخہ:  گائے کی چربی پکا کر لیں علاوہ ازیں مکھن کا استعمال ۔

ایلو پیتھی: ’ اینٹی ڈپریزینٹ ‘اور  سٹیرائیڈز فربہ کرتے ہیں۔n

The post غذا جزو بدن کیسے بن سکتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » صحت

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں