لاہور: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 10 فیصدخواتین میں چھاتی کا کینسر مورثی ہوتا ہے۔
دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی کے طورپرمنایاجاتاہے، چھاتی کے سرطان کی قومی مُہم کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان میں چھاتی کا سرطان ہر سال 40 ہزار خواتین کی موت کا سبب بنتا ہے جبکہ تقریبا ہر 9عورتوں میں سے ایک عورت کو چھاتی کا سرطان ہوجاتا ہے۔
لاہورکے شوکت خانم اسپتال کی میڈیکل آنکولوجسٹ ڈاکٹرام کلثوم اعوان نے ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ سرطان کی ابتدا اُس وقت ہوتی جب جسم کے خلیات کی تقسیم کا عمل غیر نارمل ہوجاتا ہے۔ نارمل خلیات بڑھتے ہیں اور تقسیم کے عمل سے گزرتے ہیں، تاکہ نئے خلیات بنتے جائیں اور وہ مُردہ خلیات کی جگہ اپنا کام سنبھال لیتے ہیں، تاہم بعض اوقات خلیات ایسے وقت بن جاتے ہیں جب اُن کی ضرورت نہیں ہوتی یا پُرانے خلیات اپنے وقت پر مرتے نہیں ہیں۔ اِس طرح خلیات کی کثیر تعداد جلد ہی ایک گروپ کی شکل میں جمع ہوکر گلٹی نما مادّے یا ٹیومر کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔یہ ٹیومر اپنی نوعیت کے لحاظ سے غیر سرطانی یا سرطانی ہو سکتا ہے ۔سرطانی ٹیومر اِرد گِرد کے خلیات اور عضلات کو تباہ کردیتا ہے۔
شوکت خانم اسپتال کے سینئر سرجن ڈاکٹرمحمد ذوالقرنین چوہدری کہتے ہیں کہ چھاتی کا سرطان مورثی بھی ہوسکتا ہے اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے بھی یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں سات سے دس فیصدخواتین میں چھاتی کا سرطان مورثی ہوتا ہے تاہم یہ خطرناک شرح نہیں ہے اس میں والدہ ، بیٹیاں اوربہنیں متاثرہوسکتی ہیں۔ موٹاپے سے بھی بریسٹ کینسرہوسکتا ہے۔ پھلوں اورسبزیوں پرجراثیم کش ادویات اورزہروں کا جواستعمال کیا جاتا ہے یہ بھی چھاتی کے سرطان کی ایک وجہ بنتا ہے اس کے علاوہ بھینسوں سے دودھ کے لئے جو انجیکشن استعمال ہوتا ہے اس دودھ سے بھی کینسرہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولٹری میں مرغیاں ہیں ان کی خوراک میں جو اجزا شامل کئے جاتے ہیں وہ بھی انسانی صحت پراثراندازہوتے ہیں جس میں کینسربھی شامل ہے۔
مورثی کینسرکی شکل میں 30 سال سے کم عمرخواتین چھاتی کے سرطان کا زیادہ شکار ہوسکتی ہیں۔ ایسی خواتین جوتاخیرسے ماں بنتی ہیں،یاپھروہ بچے کواپنا دودھ نہیں پلاتیں،اس کے علاوہ ایسی خواتین جووقت سے پہلے سن بلوغت کوپہنچ جاتی ہیں، یاپھردیرسے بوڑھی ہوتی ہیں، اس کے علاوہ جوخواتین کبھی شادی نہیں کرتیں۔ ان میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹرام کلثوم نے بتایا چھاتی کا سرطان بڑھنے کی ایک بڑی وجہ شرم اورجھجک بھی ہے ،اوریہ صرف دیہی خواتین میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں رہنے والی پڑھی لکھی خواتین بھی شرم کی وجہ سے اپنے خاندان کو چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہ نہیں کرتیں اورجس سے مرض بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک مریضہ کی مثال دیں جوشہرمیں رہتی ہیں اورڈبل ایم اے کیا ہوا تھا مگرجب وہ ان کے پاس علاج کے لئے آئیں توان کے دونوں چھاتیوں میں سرطان پھیل چکا تھا۔ کینسرکا نام سنتے ہی سب سے پہلے تومریض اوراس کی فیملی کوبہت بڑاشاک لگتا ہے۔ اس کے بعدلوگ دیسی ٹوٹکےاستعمال کرناشروع کردیتے ہیں، پیروفقیروں کے پاس جاتے ہیں اورجب مرض آخری سٹیج پرپہنچ جاتا ہے توپھرڈاکٹرکے پاس آتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرنومیں سے ایک عورت کے چھاتی کے سرطان میں مبتلاہونے کا خدشہ ہوتا ہے اوریہاں سالانہ تقریباچالیس ہزارخواتین کینسرکی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں تاہم ڈاکٹر محمدذوالقرین چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان میں کینسرکے مریضوں کا کوئی حتمی ڈیٹاموجود نہیں ہے ، انہوں نے بتایا کہ شوکت خانم اسپتال نے اپناڈیٹامرتب کیا ہے جبکہ پنجاب کی سطح پرکینسررجسٹری پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرام کلثوم کہتی ہیں ہرسال چالیس ہزارخواتین کا چھاتی کے سرطان میں مبتلاہوناایک تشویش ناک بات ہے تاہم یہ اعدادوشمار حتمی نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چھاتی کا سرطان عورتوں کے علاوہ مردوں میں بھی ہوسکتا ہے تاہم ان میں شرح صرف ایک فیصد ہے
ڈاکٹرمحمدذوالقرنین کے مطابق مردوں میں بھی چھاتی کے سرطان کا علاج اسی طریقے سے ہوتا ہے جیسے خواتین کاکیاجاتا ہے۔ انہوں نے کہا چھاتی کے سرطان کی چاردرجہ بندیاں ہیں۔ پہلی تین درجہ بندیوں میں سرجری کے ذریعے بھی سرطان کوختم کرنے میں مددلی جاتی ہے لیکن چوتھی سٹیج جوسب سے خطرناک ہے اس میں کینسرجسم کے مختلف حصوں میں پھیل جاتا ہے،ہڈیوں، جگر،پھیپھڑوں اوردماغ میں کینسرپھیل جاتا ہے ۔ پھر سرجری ممکن نہیں ہوتی ،اس سطح پرکیموتھراپی کی جاتی ہے ، ہارمونزتھراپی ہے اس کے علاوہ دیگرطریقے بھی ہیں تاہم یہ وہ سٹیج ہے جہاں مریض کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں کینسرکا علاج بہت مہنگا ہے کیونکہ اس میں کافی مہنگے انجیکشن لگتے ہیں، کوئی ایک فردکینسرکا علاج نہیں کرسکتا،اس میں ماہرین کی ایک ٹیم ہوتی ہے جومل کرکینسرکے مریض کے علاج کرتے ہیں۔ ماہرین کاکہناتھا برقت تشخیص سے چھاتی کے سرطان کا علاج ممکن ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے 30 سال سے کم عمرخواتین ہرماہ خود اپناجائزہ لیں اگرانہیں چھاتی میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی محسوس ہو،کسی حصے میں گلٹی ،جلدکارنگ تبدیل ہورہی ہواس کے علاوہ چھاتی میں دردمحسوس ہویا کوئی رطوبت نکلے تو ایسی صورت میں فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے چیک اپ کروانا چاہیے جبکہ جو بڑی عمر کی خواتین ہیں انہیں بھی سال میں کم ازکم ایک بار اپنا چیک اپ ضرور کروانا چاہیے۔
ڈاکٹرام کلثوم نے بتایا کہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے کافی حدتک آگاہی پھیل رہی ہے تاہم اس حوالے سے مردوں کوبیدارکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے ہی اپنی بہن ،بیٹی یا بیوی کو چیک اپ کے لئے ڈاکٹرکے پاس لے کرجانا ہے۔ روزانہ ورزش چھاتی کے سرطان سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال میں چھاتی کے سرطان کے علاج سے متعلق بہت اچھاکام ہورہا ہے ہمارے پاس چھاتی کے سرطان کی تشخیص اورمختلف مراحل کی جانچ سے متعلق تمام سہولتیں میسر ہیں۔
The post پاکستان میں 10 فیصدخواتین میں چھاتی کا کینسر مورثی ہوتا ہے، ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت