اسموگ۔۔۔تباہی جو انسان خود اپنے ہاتھوں پھیلا رہا ہے

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے۔ یہ اسموگ گزشتہ چند برسوں سے تسلسل کے ساتھ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

عالمی وبا کرونا کے پیش نظر، جس کا ٹارگٹ بھی زیادہ ترنظامِ تنفس ہے، اسموگ صحت عامہ کے لیے ایک سنگین مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے، جس کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ایک مکمل اور جامع تحریر قارئین کی نظر کی جارہی ہے۔

اسموگ دو الفاظ دھواں(Smoke) اور دھند (Fog) کے باہمی اشترک سے بنا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق یہ لفظ Dr. Henry Antoine des Voeux نے اپنے مکالے فوگ اینڈ اسموگ (Fog & Smog)میں استعمال کیا۔ اسموگ نظر آنے والی ماحولیاتی آلودگی ہے۔

یہ نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اوزون(ozone)، دھوئیں اور ہوا میں معلق دیگر اجزاء پر مشتمل ہے۔ اس میں نہ نظر آنے والے مادے کاربن مونو آکسائیڈ (CO) کلورو فلورو کاربن(CFC) اور تابکار اجزاء شامل ہیں۔ انسانی ذرائع سے پیدا ہونے والی اسموگ کوئلے کے جلنے، گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی اداروں کے اخراج اور جنگلی یازرعی آگ سے پیدا ہوتی ہے۔ جب یہ زہریلے مادے سورج کی روشنی سے ملاپ کرتے ہیں تو اسموگ بنتی ہے۔ فضا میںآلودگی کے دو طرح کے ذرات پائے جاتے ہیں۔

بنیادی آلودگی کے ذرات: یہ وہ ذرات ہیں جو براہ راست ماحول میں شامل ہوتے ہیں

ثانوی آلودگی کے ذرات: یہ ذرات کیمیائی ردعمل کے ملاپ سے بنتے ہیں

فوٹو کیمیکل اسموگ نظر نہیں آتی لیکن یہ بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ یہ صنعتی ترقی کے انقلاب کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ یہ تمام جدید شہروں میں پائی جاتی ہے، جہاں سورج زیادہ دیر تک روشن رہتا ہے ا ور موسم خشک و گرم ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ وہاں بھی جہاں روڈ ٹرانسپورٹ زیادہ ہوتی ہے۔ اسموگ کی قدرتی وجوہا ت میں ایک وجہ آتش فشاںکا پھٹنا بھی ہے، جس میں سلفرڈائی آکسائیڈ کی وافر مقدار اور اس کے ساتھ دیگر معلق مادے موجود ہوتے ہیں ۔آتش فشاں کے پھٹنے سے جو اسموگ پیدا ہوتی ہے اسے ووگ (Vog )کہتے ہیں۔

اسموگ پیدا کرنے کے لیے چند عوامل جن میںالڑاوائلٹ لائٹ( Ultraviolet Light)،ہائیڈروکاربنز( Hydrocarbons)، نائٹروجن آکسائیڈ(Nitrogen oxides )سمیت دیگر اجزا جن میں (Volalite Organic Compounds VOCs)بخاراتی نامیاتی کمپاؤنڈ شامل ہیں، قابل ذکر ہیں۔

صنعتی انقلاب اور ذرائع آمد رفت میں اضافہ و تیزی دو بنیادی ذرائع ہیں جن سے یہ مادے بڑی مقدار میں خارج ہورہے ہیں۔ دن کا وقت بھی بہت اہم ہے جو کہ فوٹو کیمیکل اسموگ بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ جیسے ہی صبح کا آغاز ہوتا ہے ٹریفک کا رش بڑتا ہے تو نائٹروجن کا اخراج اور نامیاتی مادوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ درمیانی اوقات میں ٹریفک میں کمی ہوتی ہے، اس کے ساتھ نائٹروجن اور بخاراتی نامیاتی مادے آپس میں مل کر نائٹروجن آکسائیڈ بناتے ہیں۔

سورج کی روشنی میںنائٹروجن ڈائی آکسائیڈ بائی پراڈکٹس (Byproducts)میں تحلیل ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں اوزون بنتی ہے علاوہ ازیں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، بخاراتی نامیاتی مادوں(VOCs) سے مل کر PAN(Peroxyacetyl Nitrates) بناتی ہے PAN انسان اور پودوں کیلئے نقصان دہ ہے یہ بات توجہ طلب ہے کہ غروب آفتاب کے بعد اور اوزون بننے کا عمل رک جاتا ہے ۔

اسموگ کے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ آنکھوں اور نظام تنفس کیلئے مضر ہے، سلفر ڈائی آکسائیڈ سانس کے راستے کو متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوںمیں گیسوں کے تبادلے میں رکاوٹ ڈالتی ہے، بخاراتی نامیاتی مادے (VOCs) جن میںشامل میتھین (Methane)گلوبل وارمنگ کرتی ہے ، بنزین(Benzene) کینسر پیدا کرتی ہے، اوزون ناک ، کان اورگلے کو متاثر کرتی ہے۔

اس کے علاوہ حاملہ خواتین میں بچوں کی وقت سے پہلے پیدائش ، پیدائشی طور پر جسم کی ساخت میں نقائص مثلاً سر کا چھوٹا ہونا، دماغ اور حرام مغز کی کم نشوونما ہوناLow Birth Weight  (نومولود کا کم وزن ہونا) مضر اثرات کی فہرست میں شامل ہیں۔

اسموگ کے نباتات پر بھی ضر ررساں اثر ات مرتب ہوتے ہیں، جن میں فصلوں کی بڑھوتری اور پیداواری کمی شامل ہیں۔ فصلوں اور درختوں کو اوزون (Ozone)اور پینPAN شدید متاثر کرتے ہیں۔ PAN پودوں اور فصلوں کے پتوں کو مار دیتا ہے، جس سے انگور، آلو اور تباکو کی فصل کو 50 فیصد اور کپاس کو  30فیصد نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسموگ ربڑ ، پلاسٹک ، رنگوں ، پتھر ، کپڑا اور کنکریٹ کو بھی متاثر کرتی ہے۔

اس میں شامل سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈ جیسے زہریلے اجزاشامل ہیں، اسموگ کسی بھی شہر، کسی بھی موسم میں بن سکتی ہے جہاں پہ صنعتوں سے پیدا ہونے والے دھوئیں اور گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے ۔اسموگ کی شدت کی پیمائش کی جاسکتی ہے جس کیلئے ایک خاص قسم کا آلہ جسے نیفلو میٹر(Nephelometer) کہتے ہیں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں معیار کے پیمانے مثلا ملائشینAPI

(Air Pollution index)،امریکن (American Air Quality Index)AQIاورسنگاپورPSI

) (Pollutant Standards Index شامل ہیں، استعمال ہوتے ہیں۔

فضائی آلودگی کی تازہ ترین بین الاقوامی رینکنگ میںشامل ٹاپ 25ممالک

نمبر        شہر کانام  ملک کا نام ایئر کوالٹی انڈکس(AQI)

1          ڈھاکہ    بنگلہ دیش            213

2          دہلی       انڈیا       203

3          شنگھائی   چین      189

4          ممبئی      انڈیا       169

5          کالکاتا     انڈیا       168

6          لاہور     پاکستان   165

7          اولانباتار منگولیا     160

8          کاٹھمانڈو نیپال      158

9          کراچی    پاکستان   155

10       جکارتا     انڈونیشیا  155

11       ہانگزو     چین      154

12       کابل      افغانستان 153

13       سکوپجی   ماکیڈونیا  147

14       سوفیا      بلجیریا     136

15       کیی        یوکرائن  127

16       بیجنگ     چین      118

17       ہانوئی      ویٹانم     113

18       گووانگزو چین      113

19       پوزنان   پولینڈ     112

20        کاؤسوئنگ           تائیوان  112

21       جیروسلم  اسرائیل 110

22        کوئیت سٹی            کوئیت    102

23        ٹائیپی      تائیوان  102

24        شنیانگ   چین      100

25        چنگڈو     چین      93

اس تازہ ترین عالمی رینکنگ کے مطابق براعظم ایشیا نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بلکہ فضائی آلودگی کے لحاظ سے بھی سرفہرست ہے۔ اس رینکنگ کے مطابق ڈھاکہ 213 ائیر کوالٹی انڈکس کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے جبکہ دہلی 203 کے سکورکے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ لاہور 165 کے سکور کے ساتھ چھٹے اور کراچی155 کے سکور کے ساتھ نویںنمبر پر ہے۔

اسموگ سے معاشرے کا ہر فر د متاثر ہوسکتا ہے لیکن وہ لوگ جو گھروں سے زیادہ باہر رہتے ہیں وہ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جسمانی مشقت کرنے والے عموماًگہرا اور لمبا سانس لیتے ہیں اس طرح ان کے پھیپھڑے اوزون (Ozone)و دیگر مادوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

چار قسم کے گروپ اسموگ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں

1 ۔ بچے

بچے چوں کہ زیادہ متحرک رہتے ہیں اور زیادہ وقت کھیل کود میں ہی باہر گزارتے ہیں، اس لیے اسموگ سے متاثر ہو سکتے ہیں، ان میں دمہ و دیگر سانس کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

2 ۔ نوجوان

وہ نوجوان جو باہر کا کام کرتے ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر یا جنس کے کیوں نہ ہوں اور کسی بھی نوعیت کا کام چاردیواری سے باہر کرتے ہیں شدید رسک پر ہوتے ہیں۔

3۔ بیمار

جو لوگ دل اور سانس کی بیماری میں پہلے سے مبتلا ہوتے ہیں یہ لوگ دیگر صحت مند انسان کے مقابلے میں اسموگ سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔

4 ۔ بزرگ

بزرگ افراد شدید اسموگ کے موسم میں باہر جانے سے گریز کریں۔ اسموگ سے نہ صرف انسانی حیات اور ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ روڈ ٹریفک حادثات میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

اسموگ سے بری ، بحری اور ہوائی ٹریفک متاثر ہوتی ہے ۔لوگوں کو چاہیے کہ اسموگ میں فوگ لائیٹس کا استعمال کریں ،غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں، گاڑیوں کی مرمت کروائیں،چھوٹی گاڑیوں ، بیل گاڑیوں ، گدھا ریڑھی اور تانگہ گھوڑے پر ریفلکٹر سٹیکر کا استعمال کریں ،غیر ضروری طور پر لمبے سفر سے اجتناب کریں۔صبح 10 بجے سے شام 6 بجے تک کا سفر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال لازمی طور پر کریں۔ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراداور شدید رسک پر افراد گھر سے نکلتے وقت فیس ماسک اور چشموں کا استعمال کریں۔ غیر ضروری طور پر عمارتوں کو منہدم نہ کیا جائے۔اس کے علاوہ درختوں کی غیر ضروری کٹائی نہ کی جائے بلکہ شجر کاری کو فروغ دیا جائے۔

(Industrialization ) صنعتی بڑھوتری (Urbanization)اربنائزیشن اور(Globalization) عالمگیریت جہاں انسان کے لیے وسائل پیدا کر رہے ہیں، وہاں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل بھی درپیش ہیں۔

پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطحوں پر ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بڑی اچھی قانون سازی موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد اتنا زیادہ موثر نہیں ہے، ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کے ساتھ موجودہ صورت حال کے پیش نظر نئی قانون سازی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ وفاقی ،صوبائی و مقامی حکومتوں کوایک جامع ومربوت حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ماحولیاتی آلودگی کو کم کر کے انسانی ، نباتاتی و ماحولیاتی بقا کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

The post اسموگ۔۔۔تباہی جو انسان خود اپنے ہاتھوں پھیلا رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » صحت

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں