جرمنی: اس وقت پلاسٹک کی تھیلیاں اور ذرات کرہِ ارض کے لیے ایک ہولناک ماحولیاتی عفریت بن چکے ہیں۔ اب جرمنی میں ایک ایسا بایوپلاسٹک تیار کیا گیا ہے جو کوڑے دان میں جاکر 6 سے 12 ماہ میں گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔
روایتی پلاسٹک کے ساتھ دو طرح کے مسائل درپیش ہیں ایک جانب تو وہ پیٹرولیم سے بنتے ہیں جس میں کاربن خارج ہوتا ہے اور دوم کہ اگر اسے ری سائیکل کربھی لیا جائے تو یہ اتنا اچھا متبادل نہیں بنتا اور اگر پلاسٹک کو چھوڑ دیا جائے تو یہ ختم ہونے میں سینکڑوں سال لگادیتا ہے۔
اب جرمنی میں واقع فرونیفر انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ایک فالتو شے یعنی چربی اور لحمیات سے ماحو دوست پلاسٹک بنایا ہے۔ یہ پلاسٹک استعمال کے بعد 6 سے 12 ماہ کے دوران گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے صنعتوں سے حاصل شدہ چکنائیاں جمع کیں جن میں پلاسٹک جیسی معدن پائی جاتی ہیں۔
اسے بنانا کا طریقہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ یعنی پہلے ایک خمیری (فرمنٹیشن) چیمبر میں چربی اور چکنائیوں کو ڈالا جاتا ہے۔ پھر ان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیکٹیریا ملایا جاتا ہے جو اسے پولی ہائیڈروکسی بیوٹرائٹ ( پی ایچ بی) میں بدل دیتا ہے لیکن بیکٹیریا ان کے اندر موجود رہتا ہے ۔
اس کے بعد بعض کیمیکل ڈال کر اسے سخت کرلیتے ہیں جس کے بعد پالیمر پلاسٹک بن جاتا ہے اب یہ مکمل طور پر پلاسٹک بن جاتا ہے۔ اب اگر استعمال کے بعد اسے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا جائے تو وہاں موجود بیکٹیریا اسے ایک سال کے اندر اندر گھلانے کے لیے کافی ہوں گے۔
بلاشبہ یہ ماحول دوست پلاسٹک کی ایک قسم ہے جسے اب آزمائش سے گزارا جائے گا لیکن اس سے ایک مرتبہ استعمال ہونے والے پلاسٹک کے عفریت سے پوری دنیا کو نجات مل سکتی ہے۔
The post صرف ایک سال میں گھل کر ختم ہونے والا بایوپلاسٹک appeared first on ایکسپریس اردو.