زحل اور یورینس کے درمیان ایک ’’برفیلا سیارہ‘‘ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن…

پیساڈینا، کیلیفورنیا: ماہرینِ فلکیات نے دریافت کیا ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے، جب ہمارا نظامِ شمسی اور اس میں موجود تمام سیارے اپنی تخلیق کے ابتدائی مرحلے پر تھے، تب زحل اور یورینس کے درمیان ایک برفیلا سیارہ بھی تھا لیکن جلد ہی وہ ہمارے نظامِ شمسی سے فرار ہو کر دور خلاؤں میں کہیں گم ہوگیا۔

یہ دریافت امریکا کے ’’کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس‘‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کی ہے جس کی قیادت سینئر فلکیات داں میٹ کلیمنٹ کررہے تھے۔ اس دریافت کی تفصیلات خلائی تحقیق کے معروف جریدے ’’اکارس‘‘ (Icarus) کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

آج ہمارا نظامِ شمسی مجموعی طور پر خاصا پرسکون ہے جہاں ہر سیارہ اپنے لگے بندھے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہا ہے۔ لیکن ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ نظامِ شمسی کے ابتدائی دنوں میں، جب یہ تمام سیارے بھی گیس کی شدید گرم پلیٹوں کی شکل میں تھے، حالات بہت مختلف تھے۔

مثلاً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظامِ شمسی کے بالکل ابتدائی زمانے میں مشتری کا سورج سے فاصلہ آج کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ لیکن یہ بتدریج قریب ہوتے ہوتے اپنے موجودہ مدار میں پہنچ کر مستحکم ہوگیا۔

آج ہمارے پاس ایسے کئی مفروضات اور تصورات موجود ہیں جو نظامِ شمسی کی ابتداء و ارتقاء کی وضاحت کرتے ہیں۔

کلیمنٹ کہتے ہیں کہ اب تک، دوسرے ہزاروں ستاروں کے گرد گھومتے ہوئے سیاروں کا مشاہدہ کرنے کے بعد، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا نظامِ شمسی بہت مختلف اور منفرد ہے۔ (شاید اس جیسا کوئی اور نظامِ شمسی ہماری پوری کہکشاں میں کہیں بھی نہ ہو!)

اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ ہمارے نظامِ شمسی کا ارتقاء بھی کچھ غیرمعمولی مراحل میں ہوا ہے۔

انہیں سمجھنے کےلیے کلیمنٹ اور ان کے ساتھیوں نے نظامِ شمسی کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں 6,000 سے زائد کمپیوٹر سمیولیشنز چلائیں جو اُس دور کی مطابقت میں تھیں جب ہمارا نظامِ شمسی بالکل نیا نیا وجود میں آیا تھا، اور جب سورج کے گرد سیارے بھی گرم گیسی پلیٹوں (پلینٹری ڈسکس) کی شکل میں تھے۔ یعنی ہمارا نظامِ شمسی ابھی اپنی تشکیل کے عمل سے گزر رہا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ابتداء میں ہمارے نظامِ شمسی کے تمام سیارے خاصے قریب اور بالکل گول مداروں میں چکر لگا رہے تھے، جو بتدریج نہ صرف اپنے موجودہ مداروں میں پہنچ گئے بلکہ ان کے مدار بھی بیضوی شکل میں آگئے، جیسا کہ آج ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔

ان سمیولیشنز سے اگرچہ نظامِ شمسی کے ابتدائی دور سے متعلق کچھ باتوں کی تصدیق ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک اہم انکشاف بھی ہوا۔

اگر یہ سمیولیشنز واقعی درست ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج سے اربوں سال پہلے زحل اور یورینس کے درمیان ایک ایسا بڑا سیارہ بھی موجود تھا جس کا بیشتر حصہ برف پر مشتمل تھا۔ لیکن اگلے چند کروڑ سال کے دوران، نظامِ شمسی کے دوسرے سیاروں کی کشش نے اس کا مدار اتنا زیادہ متاثر کردیا کہ بالآخر وہ یہاں سے فرار ہوکر دور خلا میں کہیں گم ہوگیا۔

The post زحل اور یورینس کے درمیان ایک ’’برفیلا سیارہ‘‘ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن… appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں