حفیظ ہم شرمندہ ہیں

انسان کی سب سی بڑی دشمن انا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے کوئی ناراضگی ہونے کے بعد بھائی بھائی سے زندگی بھر بات نہیں کرتا کہ میں بڑا ہوں کیوں پہل کروں، دوست دوست کا دشمن بن جاتا ہے،ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنھیں کوئی سلام نہ کرے تو وہ ناراض ہو کراس کیلیے جینا دشواربنا دیتے ہیں،یہ انا اگر فنا نہ ہو تو بڑا نقصان بھی پہنچا دیتی ہے،بات صرف اپنی ذات تک رہے تو ٹھیک لیکن جہاں ملک کا نام آئے وہاں انا کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔

بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں ہوتا،بظاہر یہ عام سی بات محسوس ہوتی ہے کہ کرکٹرز ایک ایسے وزیر اعظم سے ملاقات کیلیے جائیں جو خود سابق کپتان ہونے کے ساتھ بورڈ کا سرپرست اعلیٰ بھی ہو،ان کے تجویز کردہ نئے ڈومیسٹک سسٹم سے سیکڑوں کرکٹرز بے روزگار ہوئے اور مشکل زندگی گذار رہے ہیں، ظاہر ہے یہ بات کوئی ہاکی کا کھلاڑی تو جا کر نہیں بتاتا،بدقسمتی سے پی سی بی میں کسی کی یہ ہمت نہ تھی کہ وہ وزیر اعظم سے کہتا کہ سر پاکستان اور آسٹریلیا کی آبادی و حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے،ان کا سسٹم ہمارے یہاں نہیں چل سکتا، جب مصباح الحق، محمد حفیظ اوراظہر علی نے ایسا کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ ان کا بْرا وقت اب شروع ہو چکا ہے،ملاقات کے درمیان میں ہی انھیں بولنے نہیں دیا گیااوربار بار بورڈ حکام ٹوکتے رہے تھے۔

مصباح کو بعد میں چیف سلیکٹر کی پوسٹ سے محروم ہونا پڑا، اب کوچنگ بھی الٹی میٹم کی زد میں ہے، اظہر سے ٹیسٹ کپتانی چھن گئی،اگر وہ انگلینڈ میں سنچری نہ بناتے تو اب کمنٹری کررہے ہوتے، ان تینوں میں سے محمد حفیظ بورڈ کیلیے لوہے کا چنا ثابت ہوئے کیونکہ ان کے پاس سینٹرل کنٹریکٹ ہی نہیں تھا، وہ سچ بولنے کے بھی شوقین ہیں، سابق کرکٹرز بھی جس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈریں حفیظ کھل کراظہار خیال کر جاتے ہیں، کرکٹ کے ’’بادشاہ سلامت‘‘ چاہتے ہوئے بھی ان کیخلاف کوئی ایکشن نہ لے پاتے، میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ حفیظ کے حوالے سے بورڈکو بس ایک موقع کا انتظار ہے جو جیسے ہی ملا وہ ٹیم سے باہر ہو جائیں گے، ان کا بیٹ مسلسل رنز اگل رہا ہے کارکردگی کی بنیاد پر تو ڈراپ نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اب ٹی 10لیگ کے معاملے کو جواز بنا کر اپنی انا کو تسکین پہنچا دی گئی،معاملہ کچھ یوں ہے کہ پی سی بی نے3 فروری سے کھلاڑیوں کو بائیوببل میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، حفیظ نے درخواست کی کہ انھیں 5 تاریخ تک کا وقت دیا جائے۔

اگر ان کی ٹیم فائنل میں نہ پہنچی تو وہ واپس آ جائیں گے، بعد میں معاملہ 4 فروری تک پہنچ گیا، بورڈ حکام نے صبح آنے کو کہا حفیظ نے جواب دیا کہ فلائٹس دستیاب نہیں لہٰذا وہ شام تک آئیں گے،چونکہ انھیں نکالنے کا اس سے اچھا کوئی جواز نہیں مل سکتا تھا لہذا اسی بات کا فائدہ اٹھایا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ کی بورڈ کو ای میلز بعض میڈیا کے نمائندوں کو بھی لیک کی گئیں،اف ایسی سیاست وہ بھی اپنے کھلاڑی کے ساتھ، بورڈ کے کچھ آفیشلز اگر سیاست میں آئیں تو بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیں۔

کرکٹ میں ان اوچھی حرکات کا نقصان تو ملک کو ہی ہوگا، وہ تو جنوبی افریقہ کی بی یا سی ٹیم پاکستان سے ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلے گی، آسٹریلیا سے ہوم میچز کی وجہ سے بیشتر اسٹارز دوسرے ٹیسٹ کے بعد واپس چلے جائیں گے،بصورت دیگر جیتنا ہی مشکل ہوجاتا، اب تو کمزور حریف کیخلاف امید ہے فتح میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، یہ وہ محمد حفیظ ہیں جنھوں نے کیریبیئن لیگ چھوڑی، لنکا لیگ بھی کھیلنے نہیں گئے،کروڑوں کا نقصان کیا مگر پاکستان کرکٹ کو ترجیح دی اس کا صلہ انھیں یہ ملا، بورڈ نے سینٹرل کنٹریکٹ سے تو محروم رکھا ہوا ہی تھا، پہلے تو ادائیگی بھی سی کیٹیگری کے مطابق ہوتی تھی، اب ٹیم سے بھی باہر ہو گئے،یہ ہو کیا رہا ہے،کون سا ملک اپنے سپراسٹارز کے ساتھ ایسا کرتا ہے، حفیظ اگر کسی اور ٹیم میں ہوتے تو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا، وہ ان دنوں اپنے کیریئر کی بہترین فارم میں ہیں، انھوں نے آخری15 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 5 نصف سنچریوں کی مدد سے 619 رنز بنائے، اوسط 88 کی رہی، اس میں نیوزی لینڈ کے خلاف99 ناٹ آؤٹ کی یادگار اننگز بھی شامل تھی۔

بورڈ نے انھیں اپنے ایوارڈز میں بھی نظر انداز کیا،2020میں وہ دنیا کے نمبر ون بیٹسمین ثابت ہوئے اور10میچز کھیل کر83 کی اوسط سے 415 رنز بنائے، بیٹ چلے تو ٹھیک زبان نہیں چلنی چاہیے، بورڈ رات کے وقت بولے کہ دن ہے تو آپ بھی ہاں میں ہاں ملائیں، ایسے میں پرفارم نہ بھی کریں تو چل جاتا ہے لیکن اگر سچ بولنے کا سوچا تو پھر وہی حال ہوگا جو حفیظ کا ہوا، آپ یہ سوچیں کہ اتنا پرفارم کرنے والے کھلاڑی کو کوئی عزت نہیں دی جا رہی تو اس بورڈکا حال کیا ہوگا،پروٹیز سے پہلا ٹی ٹوئنٹی11 فروری کو ہونا ہے،دوسرا ٹیسٹ 8 تاریخ کو ختم ہو گا، کپتان بابر اعظم سمیت کئی کھلاڑی اس کے بعد ہی اسکواڈ کوجوائن کریں گے، ٹی 10 لیگ کا فائنل 6 فروری کو شیڈول ہے، حفیظ تو اس سے پہلے ہی آنے کو تیار تھے۔

آرام سے 3 دن کا قرنطینہ مکمل کرکے اسکواڈ کو جوائن کر سکتے تھے، جنوبی افریقی ٹیم کو تو پاکستان آنے کے اگلے دن سے کراچی جیمخانہ میں پریکٹس کر رہی تھی، ایسے میں اپنے کھلاڑی کو بھی تھوڑی رعایت دے دیتے تو کیا ہو جاتا، بڑے لوگوں کی انا چھوٹی نہیں ہونی چاہیے،کرکٹ بورڈ کیلیے کھلاڑی اپنی اولاد کی طرح ہوتے ہیں، کون سے ماں باپ اپنے بچوں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہیں، ابھی آپ اقتدار میں ہیں جو چاہیں کریں کوئی نہیں پوچھے گا لیکن جب عہدوں سے الگ ہوں گے تو کسی کو آپ کے نام تک یاد نہیں ہوں گے، البتہ حفیظ یا دوسرے کھلاڑی ہمیشہ کرکٹ کی تاریخ میں موجود رہیں گے، بورڈ کو وہ پسند نہیں تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، حفیظ ہم شرمندہ ہیں کہ اپنے ملک میں آپ جیسے ہیرے کی کوئی قدر نہیں ہے۔

The post حفیظ ہم شرمندہ ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں