فتح خوش آئند مگر

کہتے ہیں فتح کے پیچھے بڑی بڑی خامیاں چھپ جاتی ہیں، جشن کے شور میں اگر کوئی کچھ کہے بھی تو وہ سنائی نہیں دیتا مگر یہ انداز درست نہیں ہے،ہم لوگوں کی یادداشت ویسے ہی کمزور ہے، ابھی ٹیم کو سر پر بٹھایا ہوا ہے خدانخواستہ اگر اگلی سیریز میں نتائج اچھے نہ رہے تو سب پھر بْرا بھلا کہہ رہے ہوں گے۔

اس لیے ضروری ہے کہ جو غلطیاں ہوئیں ان پرنظر رکھتے ہوئے آئندہ انھیں نہ دہرایا جائے تاکہ کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھا جا سکے، پاکستان نے جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابیاں سمیٹیں، بلاشبہ ٹیم مینجمنٹ اور پلیئرزداد کے مستحق ہیں، ہم یہاں ٹی ٹوئنٹی سیریز کی بات کرتے ہیں، تیسرے میچ میں ایک موقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ اب جیتنا ممکن نہیں ہے لیکن محمد نواز اور حسن علی نے ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے ہدف عبور کرایا، دونوں ٹیموں میں سب سے بڑا فرق محمد رضوان ثابت ہوئے جو ان دنوں اپنے کیریئر کی بہترین فارم میں ہیں۔

بطور اوپنر انھوں نے زبردست کارکردگی دکھائی، ان کے اسٹرائیک ریٹ پر تنقید ہوتی تھی لیکن اس سیریز میں رضوان نے تقریباً146 کے اسٹرائیک ریٹ سے197رنز بنائے، ان کی بیٹنگ اوسط 98.5 رہی، یہ کارکردگی انھیں مین آف دی سیریز ایوارڈ دلانے کیلیے کافی تھی، یہ درست ہے کہ رضوان ان دنوں عمدہ کارکردگی دکھا رہے ہیں، اسی لیے ٹیم میں سرفراز احمد کی جگہ نہیں بن رہی لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سابق کپتان کی افادیت ختم ہو چکی،ہر ٹیم میں کئی بیٹسمین اور بولرز ہوتے ہیں مگر ظاہر ہے ایک ہی وکٹ کیپر کھیل سکتا ہے، جیسے پہلے سرفراز کھیلتے تھے تو رضوان باہر رہے، اب رضوان کھیل رہے ہیں تو سرفرازباہر ہیں، دونوں کی ہی ملک کیلیے بڑی خدمات ہیں اوروہ ہمارے ہیرو ہیں،ان کے بارے میں اب بحث ختم ہوجانی چاہیے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ رضوان کے سوا پوری سیریز میں کوئی بیٹسمین کامیاب نہ رہا، اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ کسی اور نے تین میچز میں مجموعی طور پر 50 رنز بھی نہیں بنائے،اگر بابراعظم تیسرے میچ میں 44 کی اننگز نہ کھیلتے تو 2 میچز میں ان کا اسکور محض 5 تھا،حیدر علی کے باصلاحیت ہونے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن اب انھیں خود کو ثابت بھی کرنا ہوگا، ہوم گراؤنڈ پر پرفارم کرنے کا اچھا موقع ملا تھا مگر وہ چند اچھے اسٹروکس کھیل کر ہی آؤٹ ہو جاتے، ان کا مجموعہ 15 کی اوسط سے46 ہی رہا،13 میچز میں ایک نصف سنچری اور71 کی اوسط سے واحد وکٹ افتخار احمد کے ’’ٹیلنٹ‘‘ کی عکاس ہے مگر مصباح الحق کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے وہ ایسے ہی مواقع پاتے رہیں گے۔

خوشدل شاہ اور حسین طلعت نے بھی مایوس ہی کیا، حسن علی نے گوکہ ایک ہی میچ کھیلا مگر اپنی افادیت ثابت کر دی، فٹنس مسائل سے نجات کے بعد انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ اور اب پاکستان کیلیے مسلسل عمدہ کارکردگی دکھائی ہے، فہیم اشرف بھی بیٹنگ میں اچھی فارم میں نظر آ رہے ہیں البتہ بولنگ میں انھیں محنت کرنا ہوگی،محمد نواز نے تیسرے میچ میں آل راؤنڈ کارکردگی سے ٹیم کی جیت میں اہم کردار نبھایا،ڈیبیو پر زاہد محمود نے بھی تین وکٹیں لے کر تابناک مستقبل کی نوید سنا دی، البتہ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بولرز کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے۔

شاہین شاہ آفریدی تینوں طرز میں کھیل رہے ہیں اور بولنگ مشین بن چکے، ڈر یہی ہے کہ خدانخواستہ فٹنس مسائل کا شکار نہ ہو جائیں،وہ ہمارے مین بولر ہیں نجانے ٹیم مینجمنٹ کیوں انھیں آرام نہیں کراتی، ویسے آپ بْرا نہ مانیے گا، یہ ٹھیک ہے ہم نے پروٹیز سے سیریز جیت لی مگر ٹی ٹوئنٹی ٹیم اتنی مضبوط دکھائی نہیں دیتی،آگے ورلڈکپ بھی ہونا ہے، جنوبی افریقی اسکواڈ میں اسٹار کرکٹرز شامل نہیں تھے،ان کی بیٹنگ اوسط دیکھیں تو پتا چلے گا کہ کتنے پانی میں تھے، مہمان ٹیم کیخلاف آسانی سے تینوں میچز جیتنا چاہیے تھے مگر جس طرح دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں شکست ہوئی اور تیسرے میچ میں 48 پر6اور65 پر 7 پلیئرز کو آؤٹ کرنے کے باوجود 164رنز بنوا لیے یہ لمحہ فکریہ ہے،ڈیوڈ ملر چھکے، چوکے لگاتے رہے اور سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ اسپنرز کے تین اوورز باقی ہیں، چلیں بابربھول گئے تو پانی لے کر کسی کو بھیج دیتے جو انھیں بتاتا، خیر مصباح الحق اور وقار یونس کو پی سی بی نے یہ کہہ کر  ناراض کردیا کہ وہ نوٹس پیریڈ پر ہیں، جنوبی افریقہ سے سیریز ہار گئے تو فارغ کر دیا جائے گا، اب ٹیم جیت گئی توانھیں بھی کریڈٹ دینا چاہیے، بابر نے یقیناً کپتانی میں بعض غلطیاں بھی کیں لیکن ابھی آغاز ہے وہ سیکھیں گے اور بہتری آتی چلی جائے گی، البتہ انھیں قیادت کو ذہن پر سوار نہیں کرنا چاہیے، جنوبی افریقہ سے سیریز میں ہمیں بیٹنگ کے دوران ماضی والا بابر اعظم دکھائی نہیں دیا، امید ہے وہ جلد توازن لا کر کپتانی اور بیٹنگ دونوں میں کامیابیاں سمیٹیں گے،ہمیں بیٹسمین بابرکی زیادہ ضرورت ہے۔

آگے کئی بڑے امتحان آنے ہیں جہاں ٹیم کا مکمل انحصار انہی پر ہوگا۔آخر میں کچھ چیئرمین احسان مانی کے بیان کا ذکر کرلیتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ’’حسن علی اور نعمان علی کی طویل طرز کی کرکٹ میں عمدہ کارکردگی سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا نیا ڈومیسٹک اسٹرکچر معیاری اور میرٹ کی ضمانت ہے‘‘ کاش کوئی انھیں بتا دیتا کہ حسن کا2013میں فرسٹ کلاس ڈیبیو ہوااور وہ بہت پہلے خود کو منوا چکے، نعمان تو 2007 یعنی14 برس سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں، ہاں انھیں موقع ابھی ملا، ان کی کامیابیوں کا نئے ڈومیسٹک نظام سے کیا تعلق، خیر وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’جیت کے بہت سے باپ ہوتے ہیں اور شکست یتیم ہوتی ہے‘‘ واقعی یہ بات سولہ آنے درست ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post فتح خوش آئند مگر appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں