’’بچوں‘‘ سے کیسے ہار گئے

آپ نے بچپن سے پاکستان ٹیم کے بارے میں ایک لفظ سنا ہوا ہوگا کہ یہ ناقابل پیشگوئی ہے، کبھی ورلڈ چیمپئن کو ہرا دے تو کبھی سب سے کمزور ٹیم سے ہار جائے، یہ روایت بدل نہیں سکی، ماضی قریب میں ہم زمبابوے جیسی ٹیم سے بھی ہارے، اس کی وجہ مائنڈ سیٹ ہے۔

دنیا کی دیگر بڑی ٹیمیں جب کمزور حریفوں کیخلاف کھیلیں تو ان پر ٹوٹ پڑتی ہیں جس کے نتیجے میں بڑی فتوحات حاصل ہو جاتی ہیں، ہم دفاعی موڈ میں چلے جاتے ہیں، بچوں کے خلاف بھی تجربات سے گریز کرتے ہوئے ایسی مضبوط ترین ٹیم میدان میں اتارتے ہیں جیسے بھارت کیخلاف ورلڈکپ کا فائنل کھیل رہے ہوں۔

المیہ یہ ہے کہ پھر بھی ہار جاتے ہیں، نیوزی لینڈ کیخلاف بھی ایسا ہی ہوا،ان کے14 کھلاڑی آئی پی ایل میں شرکت یا دیگر وجوہات کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے، بی کیا سی ٹیم سیریز کھیلنے پہنچی، مزید دو پلیئرز تیسرے میچ کیلیے دستیاب نہ تھے،ہم نے ایسا اسکواڈ منتخب کیا جس کا کاغذ پر کیویز کسی صورت مقابلہ کرنے کے قابل نہیں لگتے تھے لیکن کیا ہوا پھر بھی تیسرا ٹی ٹوئنٹی نہ جیت سکے، ساری دنیا میں اب مذاق بنے گا کہ یہ تو سی ٹیم کو بھی نہیں ہرا پاتے ہیں،اس سیریز سے قبل ہی کئی مسائل چل رہے تھے، پی سی بی نے شاہین شاہ آفریدی کو قیادت سے ہٹا کر بابر اعظم کو ذمہ داری سونپ دی۔

اس سے ٹیم کا اتحاد متاثر ہوا، جسمانی چوٹ تو علاج سے ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن دل پر جو چوٹ لگے اس کا کوئی علاج نہیں ہوتا، شاہین گوکہ تیسرے میچ میں اچھی بولنگ نہیں کر سکے لیکن اس سے قبل دوسرے ٹی ٹوئنٹی کے وہ مین آف دی میچ تھے، اس سے یہی لگا کہ انھوں نے اپنے ساتھ ناانصافی کا جواب عمدہ پرفارمنس سے دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اندر سے تو اپنے ساتھ اس سلوک پر وہ دکھی ہی ہوں گے، محمد عامر اور عماد وسیم کو گھر سے بلا کر ریٹائرمنٹ واپس کروائی گئی، عجیب بات یہ ہے کہ عامر کو ایک میچ میں اچھی پرفارمنس کے بعد باہر بٹھا دیا اور عماد کو اب تک تینوں میچز میں موقع ہی نہیں ملا، سب جانتے ہیں کہ بابر کے ان دونوں کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں ہیں۔

ان کی واپسی شاہین کی کپتانی کے دور میں ہونا تھی مگر انھیں ہٹانے کی وجہ سے بابر کو یہ ورثے میں ملے،ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کو گھر بھیج دیا گیا، پوری دنیا چھان ماری لیکن اب تک پی سی بی کو کوئی غیرملکی کوچ ہی نہیں ملا ہے، گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی کے نام سامنے آ رہے ہیں، ان میں سے گلیسپی نے حال ہی میں ساؤتھ آسٹریلیا اور ایڈیلیڈ اسٹرائیکرز کی کوچنگ چھوڑنے کا اعلان کیا، شیفلڈ شیلڈ میں ان کی ٹیم 6 میں سے پانچویں نمبر پر رہی، بگ بیش میں بھی کارکردگی غیرمعمولی نہ تھی، اب دیکھتے ہیں پاکستان کے ساتھ بطور کوچ کیسا پرفارم کرتے ہیں، پی سی بی میں ان دنوں محسن نقوی چیئرمین ہیں، وزیر داخلہ ، سینیٹر اور نجانے کیا کیا کام ان کے ذمہ ہیں، ایسے میں کرکٹ کو وہ بہت کم وقت دے پاتے ہیں۔

ان کے دور میں سابق نگراں وزیر بلال افضل کی سلیکشن کمیٹی میں شمولیت جیسے کچھ عجیب فیصلے بھی سامنے آئے، لاٹری وہاب ریاض کی کھلی جو نگراں حکومت میں محسن نقوی کے ساتھ تھے، وہی کرکٹنگ فیصلوں میں آگے آگے ہیں، انگلینڈ اور امریکا کے دورے بھی قریب ہیں ، وہاب نے سینئر منیجر کی خصوصی پوسٹ بھی اپنے لیے تشکیل دے کر جانے کا بندوبست کرا لیا، صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کرکٹ کے معاملات درست انداز میں نہیں چل رہے، محسن نقوی نے جنھیں اختیارت دیے وہ دانستہ اپنے سے اچھے لوگوں کو آگے نہیں لا رہے تاکہ گرفت مضبوط رہے۔

سلمان نصیر وکیل ہیں لیکن ملکی کرکٹ کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ اب تک بورڈ سے وہی لوگ فارغ ہوئے جو سی او او کے قریب نہیں تھے، جو ان کے دوست ہیں وہ بدستور اعلیٰ پوزیشنز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یا بحال بھی ہو گئے، محسن نقوی کو اچھا سی او او لانا ہوگا، سلمان لیگل کے ماہر ہیں اسی شعبے میں رہیں تو بہتر ہوگا، جہاں تک پاکستان ٹیم کی بات ہے تو بابر اعظم کو قیادت واپس ملی ایسے میں انھیں ٹیم کا مفاد مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہیے تھے لیکن انھوں نے سب سے پہلے خود کو بطور اوپنر بحال کیا،اس سے ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سرفراز احمد کا کیریئر ڈگمگانے میں بڑا کردار اپنی ذات کو پیچھے رکھ کر ٹیم کے لیے زیادہ سوچنا تھا، جب تک جیتتے رہے سب ٹھیک رہا ہارے تو ان کی اپنی کارکردگی پر انگلیاں اٹھنے لگیں، اگر سرفراز نے بھی اپنی کارکردگی پر زیادہ زور دیا ہوتا تو شاید اب بھی وائٹ بال کرکٹ کھیل رہے ہوتے لیکن ٹیم ریکارڈ ساز فتوحات نہ پاتی،بابر سے بڑا اس وقت پاکستان میں کوئی کھلاڑی ہی نہیں ہے، انھیں خود کو غیرمحفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔

دل بڑا کر کے فیصلے کریں، اب رضوان نمبر تین پر کھیل رہے ہیں،بابر اور رضوان کی بیٹنگ صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں لیکن دونوں بالز کافی ضائع کر دیتے ہیں، کپتان کو دوستی اور ذاتی مفاد کا چھوڑ کر اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، کم سے کم اس سیریز میں تو اوپننگ میں کوئی تجربہ کر لیتے، عثمان خان کشتیاں جلا کر یو اے ای سے پاکستان آئے اور اب تک انھوں نے سخت مایوس ہی کیا ہے، اب بقیہ میچز میں بھی اگر کچھ نہ کرسکے تو پھر اپنے فیصلے پر پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے، بولرز نے کہاں نیوزی لینڈ کو پہلے میچ میں 90 رنز پر آؤٹ کر لیا تھا اور اب179 رنز کا ہدف عبور کرا دیا،دیگر پوزیشنز بھی یقینی طور پر بیحد اہم ہیں لیکن کرکٹ کے ساتھ بھی لاکھوں پاکستانیوں کے دل دھڑکتے ہیں، محسن نقوی کو اسے آسان کام نہیں سمجھنا چاہیے۔

یہ فل ٹائم جاب ہے، سابق اسٹارز کے ساتھ بیٹھیں اور ان سے ملکی کرکٹ کے مسائل پر بات کریں ، تب ہی کوئی بہتری آسکے گی، ورلڈکپ میں اب دو ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے اور ہم تیسرے درجے کی ٹیم سے ہار گئے، یہ ہیں ہماری تیاریاں؟ اتنے کیچز ڈراپ کیے، قریب سے وکٹوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا اور خیالی پلاؤ ٹرافی جیتنے کے بنائے جا رہے ہیں، اگر اس شکست سے بھی آنکھیں نہیں کھلیں تو پھر امریکا اور ویسٹ انڈیز میں بھی ٹیم سے زیادہ امیدیں نہیں رکھیے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post ’’بچوں‘‘ سے کیسے ہار گئے appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں