شک کی دلدل معصوم جانوں کو نگل گئی

اللہ کے دین اور ان کے پیارے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد اولاد ہی ایک ایسی نعمت ہے، جسے ماں باپ اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں، اولاد کو کانٹا بھی چبھ جائے تو ماں باپ تڑپ اٹھتے ہیں، انہیں دنیاوی دکھ، دھوپ اور دکھوں سے بچانے کے لئے اپنی تمام تر خوشیاں تک نچھاور کر دیتے ہیں اور اپنے منہ کا نوالہ تک اولاد کے منہ میں ڈالتے ہیں۔ پھر ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے ہاتھوں اپنے جگر گوشوں اور جان سے پیاری اولاد کو جان سے مار دیتا ہے؟۔

رحیم یارخان کی تحصیل خان پور میں ایسا ہی ایک افسوسناک اور درد ناک واقعہ پیش آیا، جس نے ہر آنکھ کو اشک بار اور سنگدل سے سنگدل انسان اور والدین کو تڑپا کر رکھ دیا۔ تنگدستی تھی یا غربت یا پھر بیوی کے کردار پر شک؟ ایک باپ نے اپنے ہی دو کم سن بیٹوں کو نہ صرف قتل کر دیا بلکہ اپنے ہی ہاتھوں سے ان کی گردنیں کاٹ کر نعشیں مٹی میں دباتے ہوئے جوان اور حاملہ بیوی کو تڑپتا، روتا اور سسکتا چھوڑ کر روپوش ہو گیا۔

خان پور کے رہائشی محمد خان کی دس سال قبل شہلا بی بی سے شادی ہوئی، غربت کے باوجود شادی کا کچھ عرصہ ہنسی خوشی گزر گیا لیکن پھر گھریلو ناچاقی اور جھگڑے معمول بن گئے، جس کی وجہ بظاہر غربت اور تنگدستی تھی، تاہم اس وران اللہ تعالیٰ نے انہیں دو بیٹوں سے نوازا۔ وقت گزرتا گیا اور سلطان خان 8 اور سلمان 7 سال کے ہوگئے۔ محمد خان اور شہلہ بی بی اپنے چا رکنی کنبہ کے ساتھ بھٹہ خشت مٹی کی کچی اینٹیں بنا کر گزر اوقات کر رہے تھے کہ اچانک محمد خان نے اپنی حاملہ بیوی پر تیسرے بچے کی پیدائش نہ کرنے اور بچہ ضائع کرانے پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔

بیوی کے مسلسل انکار پر محمد خان نے بات بات پر جھگڑنا معمول بنا لیا اور یوں گھریلو ماحول مزید خراب ہوتا گیا اور پھر مبینہ طور پر محمد خان نے اپنے دونوں معصوم بچوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ 11 جون کی شب وہ رات بھر اضطرابی کیفیت میں مبتلا اور موقع کی تاک میں رہا کہ کب اس کی بیوی بھی بچوں کی طرح نیند کی آغوش میں جاتی ہے، مگر شائد شہلا کے اندر چھپی ممتا اس کو سونے نہیں دے رہی تھی، جس پر محمد خان نے رات کے پچھلے پہر بیوی کو کہا کہ وہ چار پائی اٹھائے اور بھٹہ خشت کے اندر ہی اس جگہ چلے، جہاں رہائش گاہ سے کچھ فاصلے پر اینٹیں تھاپنے کی جگہ ہے، جسے مقامی سرائیکی زبان میں پڑ کہتے ہیں۔

میاں بیوی نے بچوں کو وہیں سوتا ہوا چھوڑا اور چارپائی لے کر چلے گئے، لیکن خان محمد واردات جبکہ شہلا بی بی کسی انجانے خوف کی وجہ سے سوئی نہیں اور یوں ہی صبح ہو گئی۔ صبح پھر سے ناشتہ کرنے کے بعد بچوں سمیت پورا خاندان اینٹیں بنانے کے کام میں جت گیا۔ شہلا ادھر ادھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی تو کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہاں بچے ہیں نہ اس کا شوہر، جس پر اس نے انہیں ادھر ادھر ڈھونڈا لیکن تلاش میں ناکامی پر وہ مضطرب ہو گئی۔

خوف بڑھا تو شوہر کا حمل گرانے والا مطالبہ، سرد مہری والا رویہ یاد آیا اور یہ بھی یاد آیا کہ اس کے شوہر نے چند سال قبل بھی رحیم یارخان میں رہائش پذیر ہونے کے دوران مبینہ طور پر بچوں کو نشہ آور چیز کھلا کر بے ہوش کیا اور مارنے کی کوشش کی اور باقاعدہ پولیس کو اطلاع دی تھی کہ اس نے اپنے بچوں کو مار دیا ہے مگر بچوں کو ہوش آجانے کے بعد معاملہ سنگین ہونے کے باوجود رفع دفع ہوگیا۔ شہلا کا شک جب یقین کی حد تک پختہ ہوا تو وہ دیوانہ وار اپنے بچوں کو پکارتے ہوئے ادھر ادھر بھٹکنے لگی کہ اس دوران اینٹوں کے لئے بنائی گئی مٹی کے اندر سے اس کے بچوں کی نعشیں برآمد ہو گئیں۔

اس اندوہناک، المناک اور دردناک واقعہ کی خبر خان پور سمیت ضلع بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اہل علاقہ و سینکڑوں افراد جمع ہوگئے۔ رشتہ دار خواتین بچوں کی نعشوں سے لپٹی بد نصیب ماں کو دلاسہ دیتی رہیں جبکہ ڈی پی او عمر سلامت کے حکم پر جائے وقوعہ پر پہنچنے والے ایس پی انویسٹی گیشن رانا محمد اشرف اور بہاولپور کی فرانزک ٹیم نے تحقیقات اور ضابطہ کارروائی شروع کردی، بیشتر افراد اور پولیس نے قتل کی واردت کو غربت اور تنگدستی کے سبب ہونے والی گھریلو ناچاقی کا شاخسانہ قرار دیا جبکہ موقع پر موجود بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ملزم اپنی بیوی کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتا اور تہمت لگاتا تھا کہ دونوں مقتول بچے اس کے نہیں۔

ڈی پی او عمر سلامت اور ایس پی رانا اشرف کے مطابق انتدائی تفتیش میں شہلا بی بی کی بد کرداری کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ سنگدل قاتل متاثرہ اور مظلوم ماں پر غلط تہمت لگاتا اور بلاوجہ شک کرتا تھا۔ دوسری جانب ملزم کی تلاش کے لئے رحیم یارخان سمیت پاکستان بھر کے شہروں میں ملزم کی تلاش کی جاتی رہی اور بالآخر پولیس کی محنت رنگ لے آئی اور دونوں معصوم بیٹوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے ظالم باپ کو تھانہ صدر خان پور پولیس نے ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا۔

تھانہ صدر خان پور میں ڈی ایس پی سرکل خان پور چوہدری فرخ جاوید نے ایس ایچ او جام منظور چوہان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کو بتایا کہ موضع لعلو والا میں ملزم محمد خان ولد جند وڈہ کی فوری گرفتاری کے لیے ایک خصوصی چھاپہ مارٹیم تشکیل دی گئی جس میں ٹیم کے انچارج اے ایس آئی محمد شہباز مہاندرہ تھے جبکہ ان کی ٹیم میں حوالداران نصیر احمد ، رحمت علی ، حلیم خان ، محمد خالد شامل تھے۔

ڈی ایس پی فرخ جاوید نے بتایا کہ ملزم محمد خان کے زیر استعمال کوئی موبائل نہ تھا، جس وجہ سے ملزم کو ٹریس کرنا پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، مگر پولیس کی خصوصی ٹیم نے اپنے تمام تر دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بہترین حکمت عملی اپناتے ہوئے 5 یوم کے اندر ملزم کو ٹریس کر کے گرفتار کر لیا۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ اسے شک تھا کہ اس کی بیوی کے دیگر لوگوں کے ساتھ ناجائز مراسم ہیں، اسی وجہ سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا بھی رہتا تھا اور اسی شک کی بنا پر ملزم نے اپنے بیٹوں کو قتل کر دیا تھا۔

The post شک کی دلدل معصوم جانوں کو نگل گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2IXUVpw

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں