”یہ سوشل میڈیا پر لوگ بیچارے کرکٹرز کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں، بچے ہیں کچھ دل لگی کر لی تو کیا غلط ہوا، اب جھوٹ کیوں بولوں ہم نے اپنے دور میں اس سے بھی کئی بڑے ”کارنامے“ انجام دیے۔
ہاں مگر ہمارا کمال یہ تھاکہ کبھی پکڑے نہیں گئے، زیادہ دور کیوں جائیں اس۔۔۔ کا کون سا پارسا تھا،اس نے تو۔۔۔۔۔ ویسے ذاتی زندگی اور کرکٹ دونوں الگ چیزیں ہیں ان کو ایک نہیں کیا جا سکتا نہ عوام کو اس میں دخل اندازی کا حق ہے، ویسے آپس کی بات ہے، ہمارے دور کے کرکٹرز خوش قسمت تھے کہ اس وقت موبائل فونزمیں جدید کیمرے اور سوشل میڈیا سائٹس موجود نہ تھیں ورنہ شاید ہم بھی پھنس جاتے۔
خیر باقی باتیں پھر کبھی کریں گے، ارے ہاں کہیں تم میری اس کال کو بھی تو ریکارڈ نہیں کر رہے کہ کل سوشل میڈیا پر میرا بھی ٹرینڈ ہو کہ ”۔۔۔ ایکسپوزڈ“ ہا ہا کرنا ہے تو کر لو بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا، ویسے میں جانتا ہوں تم ایسا نہیں کرو گے، گڈ بائے“۔
یہ نائنٹیز کے ایک سابق کرکٹر کے ساتھ میری بات چیت کا خلاصہ ہے،ہم پاکستانی کرکٹرز کے حالیہ اسکینڈل پر بات کر رہے تھے، میرے بعض صحافی دوستوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو ذاتی فعل پر قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا، ٹی وی پر بعض سابق کرکٹرز کو بھی ایسا ہی کہتے سنا،بعض توانکے حق میں جذباتی انداز میں دلائل دیتے نظر آئے، سوشل میڈیا صارفین کی رائے ملی جلی رہی، شاید میں دقیانوسی سوچ کا حامل ہوں اس لیے مجھے یہ ”دل لگی“ پسند نہ آئی، میں نے جب ایک اوپنر کے واٹس ایپ میسجز کے اسکرین شاٹس سوشل میڈیا پر دیکھے تو سر شرم سے جھک گیا، مگر مجھے پتا ہے ماڈرن لوگ یہی کہیں گے ارے کیا ہو گیا، نوعمری میں سب ایسا کرتے ہیں، مگرمعاملہ صرف بات چیت نہیں اس سے بھی کافی آگے کا لگتا ہے جس پر اگر قانون کا اطلاق ہو تو سخت سزا بھی مل سکتی ہے، شاید اسی لیے اسے زیادہ آگے نہیں بڑھایا جا رہا کہ ”بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی“۔
لوگ کہتے ہیں فلاں بڑے صاحب کا بھی تو ایسا اسکینڈل سامنے آیا ان کے ساتھ کیا ہوا کچھ نہیں لہذا کرکٹرز کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اگرسب کا جو دل چاہے وہی کرتے رہیں تو معاشرہ ایک دن تباہ ہو جائے گا، آپ کو شرجیل خان تو یاد ہوں گے،پابندی ختم ہونے سے پہلے ہی آج کل ان کی واپسی کیلیے بڑی مہم چلائی جا رہی ہے، پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کیس میں ان پر الزامات ثابت ہو چکے اسی لیے پابندی کی سزا کاٹ رہے ہیں، اس کیس میں پھنسنے سے کچھ ماہ قبل ان کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کسی خاتون کے حوالے سے بلیک میلنگ کا خدشہ ظاہر کیا، بعد میں وہ فکسنگ پر پکڑے گئے،اگر معاملے کی کڑیاں ملائی جائیں تو تانے بانے ”ہنی ٹریپ“ سے بھی مل سکتے ہیں، کیا موجودہ کرکٹرز کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا؟
سب سے پہلی بات یہ کہ اگر مذکورہ کھلاڑی آف سیزن میں ایسا کوئی کام کرتے تو نجی معاملہ کہہ کر الگ رہا جا سکتا تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا ورلڈکپ کے دوران ہوا، ایک ایسا ایونٹ جس میں شرکت کیلیے غیرملکی کرکٹرز کئی کئی ماہ پہلے سے تیاریاں شروع کردیتے ہیں، مگر ہمارے بعض کھلاڑیوں نے غلط سرگرمیوں میں پڑ کر اپنی توجہ بٹائی، میچ سے قبل بھی وہ لڑکیوں سے فضول قسم کی باتیں کرتے رہے۔
ان میں سے ایک لڑکی کا نام ایف سے شروع ہوتا اور تعلق جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سے ہے،ورلڈکپ کے دوران بعض کرکٹرز کی ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی تھی اگر اسے غور سے دیکھیں تو ایک کے ساتھ وہی موجود ہے، میں نے میگا ایونٹ کے دوران بھی ذکر کیا تھا کہ چند پلیئرزکی سرگرمیاں ٹھیک نہیں اور وہ نائٹ کلبز وغیرہ میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ٹیم منیجر اور سیکیورٹی منیجرز کیا کرتے رہے؟پلیئرز کے کمروں میں لڑکیاں کیسے آزادی سے جاتی رہیں، وہ کیسے گاڑیوں میں ساتھ گھومتے رہے، اگر ان میں سے کوئی بکیز کی آلہ کار ہوتی تو کیا ہوتا؟ بعض کھلاڑیوں کی کیسے دوستیاں ہوئیں انھیں کون اپنا گھر بھی فراہم کرتا رہا اس معاملے کو نہ ہی چھیڑیں تو اچھا ہوگا لیکن اسکواڈ کے2افراد کی وجہ سے ٹیم میں ”آزادی کلچر“ سامنے آیا، ان کا ماڈرن لائف اسٹائل دیکھ کر بعض نوجوان کرکٹرز بہت متاثر ہوئے اور اب کھلے عام ایسے کام کرتے ہیں جنھیں اخلاقی طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہ معاملہ صرف 2 کا نہیں ہے اس میں بعض دیگر پلیئرز بھی شامل ہیں۔
گذشتہ عرصے غیرملکی ٹور کے دوران ایک پر ریپ کا الزام بھی لگا جس سے بڑی مشکل سے پیچھا چھڑایا گیا تھا، اگر پی سی بی ایسے ہی ان باتوں کو نجی معاملہ قرار دیتے ہوئے اپنا دامن بچاتا رہا تو یقین مانیے ایک دن بہت بڑا اسکینڈل سامنے آئے گا جس سے ملک کی مزید بدنامی ہو گی،اب بھی غیرملکی میڈیا شہ سرخیوں میں حالیہ کیس کی خبریں شائع کر رہا ہے۔ بورڈ اس طرح خاموش نہیں رہ سکتا، چونکہ سیریز کے دوران ایسا ہوا اور کھلاڑی سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ ہیں لہذا ان سے جواب طلبی کریں، ٹور میں ڈسپلن کو ”مثالی“ قرار دینے والے بزرگ منیجر طلعت علی سے بھی پوچھا جائے کہ ”بچوں“ کو اتنی کھلی چھوٹ کیوں دی، ہم لوگ امریکی یا برطانوی نہیں ہمیں تھوڑا احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
غیراخلاقی حرکات بہت سے دیگر لوگ بھی کرتے ہوں گے مگر چونکہ وہ عام انسان ہیں اس لیے کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی اہم شخصیت ملوث پائی جائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے،اس کا آغاز فلاں پاکستانی سے ہی ہوتا ہے لہذا خیال رکھیں، جو لڑکیاں سوشل میڈیا پر مہم چلا رہی ہیں ان کیخلاف بھی بلیک میلنگ پر کارروائی ہونی چاہیے، نجی گفتگو کے اسکرین شاٹس لینے اور ویڈیوز ریکارڈ کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد بعد میں بلیک میل ہی کرنا تھا، اب بورڈ کو کسی ینگ انسان کو منیجر بنانا چاہیے جو ٹیم پر نظر بھی رکھ سکے ورنہ ہمارے پلیئرز ایسے ہی جگ ہنسائی کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔
The post کرکٹرزکی ”دل لگی“اور خاموش بورڈ appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل