سابق ٹیسٹ کرکٹربتا رہا تھا کہ غلطی کوئی کرتا ہے، خمیازہ کسی اور کو بھگتنا پڑتا ہے، اس غلطی اور کوتاہی کو سدھارتے سدھارتے بعض اوقات سالہا سال گزر جاتے ہیں۔
زیادہ دور جانے کی بات نہیں، سری لنکن کرکٹ ٹیم کو ہی دیکھ لیں، 2003ء میں آئی لینڈرز پاکستان کے دورے پر تھے، لاہور ٹیسٹ کھیلنے کے لئے ٹیم فائیو سٹار ہوٹل سے قذافی سٹیڈیم آ رہی تھی کہ پہلے سے لبرٹی چوک میں موجود شرپسندوں نے مہمان ٹیم کی بس پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے کپتان ماہیلا جے وردھنے، نائب کپتان کمار سنگاکارا سمیت 6مہمان کرکٹرز زخمی ہو گئے جبکہ چھ پولیس افسران اور دو شہریوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اس المناک حادثے کا ذمہ داراس وقت کے کرکٹ بورڈ کے اعلی عہدیداروں تھے جنہوں نے مہمان ٹیم کی سکیورٹی کے لئے کوئی خاص اقدامات ہی نہ کئے،اس صورت حال کے بعد پاکستان غیر ملکی ٹیموں کے لئے نو گو ایریا بن گیا، پاکستان کو نہ صرف ورلڈ کپ سمیت انٹرنیشنل سیریز کی میزبانی سے محروم ہونا پڑا بلکہ اپنی ہوم سیریز بھی بیرون ملک کھیلنا پڑی جس کی وجہ سے وکٹ کیپر ذوالقرنین کے ٹیم مینجمنٹ کو بتائے بغیر یواے ای سے انگلینڈ جانے سمیت ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے جو بعد میں ملکی بدنامی کا باعث بنے۔
ارض پاک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے پاکستان آرمی میدان میں آئی اور ضرب العضب اور ردالفساد آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا، خوشی کی بات یہ ہے کہ پاک فوج کی قربانیوں اور کامیاب آپریشز کے بعد اب پاکستان کی پہچان پرامن ملک کے طور پر ہو چکی ہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ دوسروں شعبوں کی طرح پاکستان میں کھیلوں کی بین الاقوامی سرگرمیاں بھی بحال ہو چکی ہیں۔
سری لنکن کرکٹ ٹیم حال ہی میں ٹوئنٹی20 اور ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لئے پاکستان آئی، دورے کے دوران مہمان ٹیم کا ہماری سکیورٹی ایجنسیز پر اعتماد اس قدر بحال ہوا کہ اب آئی لینڈرز نے 2 میچوں کی ٹیسٹ سیریز بھی کھیلنے کی حامی بھرلی ہے۔ شیڈول کے مطابق پہلا ٹیسٹ 11 تا15 دسمبر تک راولپنڈی میں کھیلا جائے گی جبکہ دوسرے ٹیسٹ میں دونوں ٹیمیں19 تا 23 دسمبر تک نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ایکشن میں دکھائی دیں گی۔
یہ دس سال کے بعد پہلا موقع ہے جب کوئی انٹرنیشنل ٹیم ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے کے لئے پاکستان آئے گی، سیریز کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیدار، ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑی خاصے پرجوش ہیں، شائقین کرکٹ کی بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، ساتھ ساتھ یہ ٹیسٹ سیریز قومی ٹیم کی دوبارہ نمائندگی کے خواہاں فواد عالم کے لئے بھی خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لائی ہے، آل راؤنڈر کو 4 سال کے طویل عرصے کے بعد دوبارہ سکواڈ کا حصہ بنا لیا گیا ہے، سری لنکا کے خلاف سیریز کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کا آسٹریلیا میں جو حشر ہوا، اس کے بعد فواد عالم کا ٹیم میں واپس آنا ضروری بھی تھا،اب یہ فواد عالم پر منحصر ہے کہ ٹیم میں دوبارہ موقع ملنے کا وہ کتنا اور کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اقتدار اور طاقت ایسا نشہ ہے جو بڑوں بڑوں کی مت ماردیتا ہے، مصباح الحق ہیڈکوچ، چیف سلیکٹر کے ساتھ بیٹنگ کوچ کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی رائے ہے کہ اضافی ذمہ داریاں پڑنے کی وجہ سے سابق کپتان کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے، اس لئے انہیں صرف چیف کوچ کی ذمہ داری ہی سنبھالنی چاہیے۔ راقم نے ہفتہ کو قذافی سٹیڈیم میں شیڈول پریس کانفرنس کے دوران اپنے سوال کے دوران جب یہ نکتہ اٹھاتا تومصباح الحق کا کہنا تھا کہ مجھ پر کام کا کوئی دباؤ نہیں، اگر مصباح الحق پر کام کا کوئی پریشر نہیں تو کیا وہ یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ پاکستان سری لنکا کی ’’ بی‘‘ٹیم کے خلاف ٹوئنٹی20 میچوں کی سیریز کیوں ہار گیا۔
کیوں پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا میں ٹوئنٹی20 اور ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں شرمناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا،کیوں وہ ہر سیریز کے بعد اپنے ہی بیانات کی نفی کرتے نظر آتے ہیں اور وہ کیوں ٹیم سے اچھی کارکردگی کے لئے ایک سال کی مہلت مانگ رہے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ مصباح الحق کو ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر اور بیٹنگ کوچ کے الگ الگ پیسے ملتے ہیں اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اتنی اماؤنٹ تو سربراہان مملکت، چیف جسٹس، چیف سیکرٹری اور ہمارے وزراء کو بھی نہیں ملتی، ظاہری بات ہے کہ ہر ماہ بڑی رقم آتی اکاؤنٹ میں آنا کسے بری لگتی ہے، اس لئے تو انہوں نے پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے دوران اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہیڈ کوچ کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں پاکستان سپر لیگ کا بڑا عمل دخل ہے، ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمینوں ڈاکٹر نسیم اشرف اور ذکا اشرف نے پی ایس ایل کروانے کے بیانات تو دیئے لیکن ان کی کوششیں زبانی جمع خرچ تک محدود رہیں، سابق سیکرٹری خارجہ شہریارخان نے دوسری بار پی سی بی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا توانہوں نے نجم سیٹھی کے ساتھ مل کر پاکستان سپر لیگ کروانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔
نجم سیٹھی نہ صرف لیگ اس مقصد میں کامیاب رہے بلکہ جب وہ چیئرمین پی سی بی بنے تو انہوںنے پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کا سلسلہ جاری بھی رکھا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین احسان مانی بھی پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کے لئے سنجیدہ ہیں، اس بار لیگ کے مقابلے متحدہ عرب امارات کی بجائے پاکستان میں ہی ہوں گے، اس بار بھی انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، افغانستان سمیت دن بھر کی ٹیموں کے کھلاڑی ایکشن میں دکھائی دیں گے۔
اسپاٹ فکسنگ میں نامزد شرجیل خان بھی لیگ کے دوران جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں، پاکستان سپرلیگ کے پانچویں ایڈیشن کی ڈرافٹنگ تقریب جمعہ کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں ہوئی جس میں چیئرمین پی سی بی احسان مانی، ایم ڈی پی سی بی وسیم خان سمیت تمام فرنچائز کے مالکان اور دیگر عہدیداران سمیت کوچنگ سٹاف شریک ہوا جب کہ تقریب میں قومی کرکٹرز سمیت شوبز شخصیات نے بھی شرکت کی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ نے پہلی بار پاکستان سپرلیگ کا حصہ بننے والے جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولر ڈیل سٹین، نیوزی لینڈ کے جارح مزاج بلے باز کولن منرو اور پچھلے سیزن میں کراچی کنگز کی نمائندگی کرنے والے کولن انگرم کو ٹیم کا حصہ بنایا ہے۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی قیادت قومی ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد ہی کریں گے جب کہ انہوں نے انگلش اوپنر جیسن روئے اور آسٹریلوی لیگ سپنر فواد احمد کو ٹیم میں شامل کیا ہے، اسی طرح ایسے ملکی اور غیر ملکی نامور پلیئرز بھی شامل ہیں جو اپنی غیر معمولی کارکردگی سے لیگ کو چار چاند لگائیں گے تاہم کچھ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو اس لیگ کا حصہ بننے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کا نام گولڈ کیٹگری میں موجود تو تھا لیکن کسی بھی ٹیم نے انہیں خریدنے کی زحمت گوارا نہ کی، ٹی ٹوئنٹی سپیشلسٹ عمران نذیر بھی کسی ٹیم کو متاثر نہ کرسکے، حارث سہیل، محمد سمیع بھی نظر انداز ہوئے ہیں، اسی طرح فاسٹ بولر عمر گل، مستقبل کے بہترین بیٹسمین سمجھے جانے والے عابد علی، عمران خان جونیئر، میر حمزہ ، مختار احمد، سعد نسیم، ذوالفقار بابر، عثمان صلاح الدین، عمران فرحت کو بھی کسی بھی ٹیم نے منتخب نہیں کیا، اسی طرح جنوبی افریقہ کے اوپنر ہاشم آملہ، جے پی ڈومنی، ویسٹ انڈیز کے ڈوائن براوو بھی کسی بھی ٹیم کو متاثر نہ کرسکے ،ویسٹ انڈیز ہی کے سنیل نرائن، ایون لوئیس، سری لنکا کے انجیلو میتھیوز، تھیسارا پریرا بھی منتخب نہ ہوسکے، انگلینڈ کے عادل رشید اور ہیری گورنی کو بھی کسی ٹیم نے پک نہ کیا جب کہ بنگلہ دیش کے مجیب الرحمان، افغانستان کے راشد خان اور محمد نبی بھی پاکستان سپر لیگ کے دوران ایکشن میں دکھائی نہ دے سکیں گے۔
پاکستان میں رواں ماہ سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز اور پی ایس ایل کے پانچویں ایڈیشن کے کامیاب انعقاد کے بعد نہ صرف کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملے گا بلکہ ملکی سونے گراؤنڈز کو بھی مکمل طور پر آباد کرنے میں ملے گی۔
The post سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی میزبانی appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل