’’ اگر ہم حفظانِ صحت کے اُصولوں پر عمل کریں گے تو بیمار نہیں ہوںگے ۔اگر بیمار ہو جائیں تو اس کا علاج کرسکتے ہیں‘۔
(تاریخِ طب بحوالہ طبِ نبویﷺ)۔حفظانِ صحت کا علم بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ چنانچہ حالت بدنِ انسانی تین میں سے ایک ضرور ہوتی ہے:
1۔صحت مند، 2۔متوسط،3۔ لاغر
صحت مند رہنے کے لیے حفظان ِصحت کے اصولوں پر عمل مع ریاضت(ورزش)کیا جائے ۔ متوسط الصحت رہنے کے لیے حفطان صحت کے اصول کی پابندی ضروری امر ہے، تاہم ایسے اشخاص وقت کے ساتھ لاغری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لاغر اشخاص میں تین طبقات داخل ہیں:
1۔نابالغ، 2۔ بوڑھے، 3۔ بیمار
چنا نچہ نابالغ بلوغت کی عمرکو پہنچنے پر درست غذا اور کھیل کود کی عادت اپنانے پر صحت مندوں میں داخل ہوتے ہیں ورنہ نازک اور حساس ہی رہتے ہیں۔ بیمار اشخاص کی اگر دیکھ بھال کی جائے اور انھیں رقیق مگر طاقتور اغذیہ استعمال کرائی جائیں تو متوسط طبقے میں شامل ہوسکتے ہیں، سنِ شباب میں اگر ہوں تو مزید عادات یعنی مناسب ورزش کے ذریعے صحت مند طبقے میں شمار ہوسکتے ہیں۔ بوڑھے اشخاص کی صحت ان کی عمر کے لحاظ سے رہتی ہے مثلاً اکثر اشخاص ستّر برس کی عمر میں گنٹھیا کے درد، گردوں اور قلب کے عوارض میں مبتلا نظر آتے ہیں، اگر کوئی بزرگ اس عمر میں بھی کسی مرض میں مبتلا نہ ہو تو وہ اپنے ہم عصروں میں صحت مندکہلائے گا۔
البتہ بیمار اشخاص میں بھی چند طبقات ہیں ، ایک طبقہ ایسا ہے جو بیمار ہونے پر علاج کر انے کی بجائے پیغام اجل کا انتظار کرتاہے مثلاََ
1۔ ایک شخص جنھیںادھیڑ عمری میں لقوہ ہوگیا،اس کا بیٹااسے بغرض ِعلاج لے آیا مگر مریض کو کوئی دلچسپی نہ تھی، جب پوچھا گیا کہ کیوں نہیں علاج کراتے؟ تو کہنے لگا کہ مرنا تو ایک دن ہے ہی ، بیمار نہیں ہوںگے تو مریں گے کیسے؟
2۔کچھ اشخاص ایسے ہوتے ہیں، لواحقین ان کا علاج کروانا چاہتے ہیں تو مریض صاحب مختلف اطباء ، اداروں کی کتب کے ڈھیر اگلے دن اٹھا کے لے آتے ہیں، یہ دکھانے کے لئے کہ ان کا علاج ہے ہی نہیں۔ ایک شخص جس کی بڑھتی ہوئی عمر تھی، اس کا جگر متورم تھا ، ایک رپورٹ لے آیا جس کے مطابق اسے یرقان تھا ، جب اسے اس کی بیماری کا احوال بتایا گیا تو وہ اپنے علاقے کے معمر اطباء کے اقوال پیش کرنے لگا اور بضد رہا کہ اسے’ آئی ۔بی ایس ‘ ہے، جو علامات یرقان کی ہوتی ہیں، قبض ، ریح ،چکر ، قلتِ اشتہا وغیرہ کا اقرار بھی کرتا تھا ، تاہم جو رپورٹ ’یرقان‘ کا بتا رہی تھی،کا منکر بھی تھا۔
3۔کچھ اشخاص ایسے ہوتے ہیں جنہیں دواء لکھ کردی جائے تو کہتے ہیں کہ ہم نے بچپن سے دوا استعمال نہیں کی، ہماری تکلیف شاید پیغام اجل ہے ۔
غرض ان تمام طبقات سے یہ کہنا کہ ’ علاج کرائیں صحت یاب ہوں گے‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معا لج آپ خود جنون میں مبتلا ہو جائے۔ گو کہ بحمد ربّ العلیٰ ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ایک بڑا طبقہ مناسب تدابیر کے ذریعے روبہ صحت بھی ہوا ۔ میرے اس جملے ’ہر مرض کا علاج ہے، پُر استقامت رہیں ‘ کے جواب میں بہت سے رنج آمیز کلمات سننے کو ملے۔ حالانکہ امراض ِقلب، پتہ ، لبلبہ ، ذیابیطس ، بلڈپریشر وغیرہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ لاعلاج ہیں، غلط ہے۔ ہربیماری کا علاج موجودہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:’’ رب تعالیٰ نے کوئی بیماری دنیا میں ایسی نہیں بھیجی ، جس کے لیے شفاء نہ نازل کی ہو، جنہوں نے جاننا چاہا ، انہیں بتایا اور جنہوں نے پروا ہ نہ کی انہیں نا واقف رکھا‘‘۔
مختلف موسموں میں صحت مند رہنے کی تدابیر
بہتر موسم بہ اعتبارِ صحت خریف (خزاں) کا ہے کیونکہ قدیم حکماء کے نزدیک مو سم ر بیع (بہار ) میں بیماری پیدا کرنے والے اجسام غریبہ بھی مائل رقص ہوتے ہیں، وہ اپنی افزائش کیلئے کسی کمزور قوت کے حامل جسم کو چن لیتے ہیں، اپنی افزائش اور انسان کو علیل کرتے ہیں۔ موسم ِگرما میںقوتیں تحلیل ہوتی ہیں خاص طورپر حبس کے ایام میں ۔ موسمِ سرما میں ہضم عمدہ ہوتا ہے مگر ریح اور قبض کی شکایت بھی بڑھتی ہے کیونکہ فضلے کے اخراج کے راستے تنگ ہوجاتے ہیں،گاہے پھیپھڑوں کی تنگ ہوائی نالیوں میں ہوجاتی ہے مگر یہ کیفیات اکثر سرد مزاج والے اشخاص کو متاثر کرتی ہیں۔
ایسے میں چند تدابیر اختیار کرنے سے موسم سرما کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ جب سرد ہوا میں سیاحت کرنے کو جی چاہے تو ناک کے نتھنوں کوزیر غور رکھیں کہ یہاں سے ہی جسم متاثر ہوتا ہے۔سیاحت کے دوران کوئی سکون پہنچانے والی چیز استعمال کریںجس کا مزاج گرمی کی طرف مائل ہو،’’سونف ‘‘ ہاضمے کے راستے کھولتی ہے،دماغ کو تقویت اور فرحت بخشتی ہے۔محرک ہے کہ سردی کی قوت کا ازالہ کرتی ہے۔ایسے موسم میں جسم پر گرم لبادہ اوڑھیں، جہاں تک ہو سکے بال ذرا لمبے ہی رکھیں۔یہ نظریہ کہ لمبے بال خون چوستے ہیںدرست نہیں۔
موسم سرما میں غذا پر دھیان
ہمارے ہاں لوگ گرم مزاج اور گرم مصالحے والی غذا کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں،شایداس لیے کہ جسم کی حرارت بحال رہے ،اس کے نتیجے میں معدے کے عوارض اسہال ،مروڑ اور پیچش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ غذا کے ساتھ مصلح استعمال نہیں کرتے یاپھر ایسی غذا غلط وقت میں استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال اس حالت میں ملے جلے میوہ جات استعمال کرنے چاہئیں مثلاً صرف بادام ، اخروٹ ، فندق،پستے ہی استعمال نہ کریں بلکہ سب ملا کردودھ کے ساتھ استعمال کریں۔ آپﷺ کھجور کے ساتھ ککڑی استعمال فرماتے تھے (بحوالہ طب ِنبوی ﷺ)۔ بڑے کے پائے جو اکثر حضرات تناول فرماتے ہیں، جس میں گرم مصالحے کے علاو ہ گھی بھی وافر مقدار میں ہوتا ہے، اس کے چھ گھنٹے بعد اگر ہاضمہ مکمل نہ ہونے پائے توہاضم ادویہ کا سہارا لینا بہتر ہے۔نیز ایسی غذاء کے دو گھنٹے بعدہلکی ورزش کریں تاکہ معدہ خود ہضم کرسکے۔ ہاضم دواء میںخامرات (پیپسین،پیپین ،ڈایاس ٹیس ،امائی لیز) کا استعمال کریں۔اگر براز میںچکنائی کا احتمال ہو تو خامرہ ’’پین کریاٹین‘‘ کا استعمال کریں،بوقت ضرورت استعمال سے یہ خامرات اپنا عادی نہیں بناتے۔
غذاء استعمال کرنے کا طریقہ
معدے کا خوب دھیان رکھیں، ربّ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ بیمار ہوکے ہی موت آئے گی۔ یہ فرمان یادر کھو:’’معدہ بدن کا حوض ہے، جس سے بدن کی تمام رگیں لگی ہوتی ہیں۔جب معدہ صحیح ہوتاہے تو رگیں صحت کے ساتھ رطوبت لے کر چلتی ہیںاور جب معدہ تندرست نہ ہوتو رگیں رطبتِ مرضیہ لے کر بدن میں چلتی ہیں‘‘ (طب ِنبویﷺ) ۔ ضروری نہیں کہ پرہیز بیمار شخص کے لیے ہوتا ہے،حارث بن کلدہ(یہودی طبیب ) کا قول ہے:اطباء کے نزدیک پرہیز کا مطلب یہ ہے کہ تندرست کو ضرر سے بچانا ایسا ہی ہے جیسے مریض اور ناتواں کے لئیے مضر چیز کا استعمال نہ کرانا۔ نیز پرہیز قبل از علالت سب سے بہتر نسخہ ہے۔ کھاتے وقت یہ خیال رکھیںکہ معدے میں پانی اور ہوا کی بھی جگہ رہے۔اگر بہ مجبوری زیادہ کھا لیا جائے تو کھانے کے ایک گھنٹہ بعدچلناپھرنا،دوڑنا (تقریباًآدھا کلومیٹر) اختیار کریں۔ پھر بھی معدہ بھرا رہے اور شکم سے بھرے مشکیزہ جیسی آواز بھی آئے تو ہاضم ادویہ یا ہاضم جڑی بوٹیاں استعمال کریں۔ پھر اگر قبض ہو تو قبض کشا ادویہ استعمال کریں۔قبض کشا ادویہ میںسناء (مکی)اور زیرہ بہترین ہیں۔
عمر ،غذا اور ورزش
ہر عمر والا شخص ایک جیسا نہیں ہوتا ، یاد رکھیںکہ غذا کا جزوِبدن بننا ہی طاقت بہم پہنچاتا ہے نہ کہ غذا کا بہ کثرت استعمال ، لہذا عمر کے مختلف حصوں میں اپنی خوراک اور ورزش سے متعلق مندرجہ ذیل ہدایت کو پیش نظر رکھیں:
سنِ نمو(بڑھوتری کے سال)
ناشتے میں دودھ (بہتر ہے اونٹنی اور بکری کا کہ یہ دماغ کو چُست اور حافظہ بڑھاتا ہے، بھینس کا دودھ سرد اور خشک ہے ُسست کرتا ہے)، دلیہ یا جَو کا ستوبہتر ہے۔ اس عمر میں بہ طور ورزش کھیل کود ہی کافی ہیں۔ زیادہ مِرچ والی اغذیہ نہیں کرنی چاہئیں۔
سنِ شباب (جوانی کے سال)
ناشتہ میں قدرے جلد ہضم غذا جبکہ دوپہر میں سخت غذا کھائی جاسکتی ہے اتنی مقدار میںکہ شکم میں بوجھ نہ بنے۔ اس عمر میں معدہ ، آنتیں ،حرارت جسمانی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور دماغی مشقت بھی زیادہ کرنی ہوتی ہے لہذا غذا جزوِبدن بن جاتی ہے۔اس عمر میں سخت ورزش کرسکتے ہیں جیسے چربی پگھلانے والی ورزش یا یوگا۔
سنِ شیوخت (بڑھاپے میں)
بڑھاپے میں ایک بار پھر تمھاری قوتیں کمزوری کی طرف مائل ہوتی ہیں،لہذا رقیق اغذیہ کا استعمال کریں تاکہ جسم میں رطوبت طبعی رہے ورنہ بڑھاپے میں انسان کا مزاج سردی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس عمر میں ورزش کے طور پر چہل قدمی ،ہلکی دوڑ کافی ہے۔
سونے اور جاگنے سے متعلق ہدایات
عمر کے مطابق نیند میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔ بچوں کو نیند زیادہ آتی ہے کیونکہ ان کا دماغ و جسم نشونما کی غرض سے زیادہ آرام طلب ہوتا ہے اور ان کا اپنا مزاج بھی تر ہوتا ہے، پندرہ سال کی عمر تک نیند آٹھ گھنٹے ضرور لینی چاہیے۔ جوانی میں نیند کی مقدار کم اس لیے ہوتی ہے کہ مزاج خشکی کی طرف مائل ہوتا ہے، اس لیے جوان جذبات میں جلدی آتے ہیں ۔دفتر میں کام کرنے والوںکو چھ گھنٹے نیند ضرور لینی چاہیے۔ ادھیڑ عمر اشخاصکوکچھ ایسے امراض گھیر لیتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے ادوار کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔
اس عمر میں ورزش ضرورکریں تاکہ حرار تِ غریزی پُر اشتعال رہے ورنہ امراض ِقلب ، بلڈپریشر، ذیابیطس، جگر اسی عمرسے آگھیرتے ہیں۔ اس عمر میں نیند اتنی ضرور لیںکہ دماغ میں تازگی رہے۔ساٹھ سال تا آخر عمر قوتیں کمزور ہورہی ہوتی ہیں، قدیم حکماء کا کہنا ہے کہ اس عمر میں الما س بھی کھلائیں توپیتل جتنا اثر ہی ہوگا کیونکہ طبعیت اچھی اغذیہ کو ہضم کرنے سے قاصر رہتی ہے، صرف اپنی بساط کی حد تک جذب کرتا ہے۔ اس عمر میں ناشتے میں میوہ جات مع دودھ (تاکہ قبض بھی نہ ہواور میوہ جات سے غذا بھی حاصل ہو) استعمال کرنا چاہیے، پھر دو اُبلے ہوئے انڈے کیونکہ مرغی کے انڈے پیٹ میں اپھارہ نہیں کرتے ، انڈے کی سفیدی میں کیلشیم کی مقدار ہوتی ہے اور ڈکار بھی اچھی نہیں ہوتی اس لیے انڈے کی زردی مفید ہے۔ دوپہر میںطبعیت کے مطابق غذا لیں، رات میں غذا تھوڑی مقدار میں لیںاور چہل قدمی کو معمول بنائیں۔ قبض نہ ہونے دیں ، اس سے ریح پیدا ہو کر قلب و دماغ کو بوجھل کرتی ہے۔
دماغی ریاضت
قدیم حکماء کے نزدیک جسمانی عمر اور ذہنی عمر میں فرق ہے۔بعض کم سن اشخاص اُن امور پر دسترس رکھتے ہیں جن پر بڑی عمر والے نہیں رکھتے۔ دماغی ریاضت سے دماغی قوتیں بڑھتی ہیںجس طرح جسمانی ریاضت سے لحم(گوشت) ،شحم(چربی)، ہجم میں اضافہ ہوتا ہے،اسی طرح دماغی ریاضت کے باب میں
1۔کثرت سے یاد کرنا (اس سے قوت حافظہ بڑھتاہے)۔2۔کثرت سے تفکر کرنا (اس سے متفکرہ بڑھتی ہے) نیز اس تفکر سے غم مراد نہیںبلکہ دنیا میں پائی جانے والی مختلف اشیاء اور اپنے بدن کے مختلف اعضاء پر غور کرنا اور سوچنا کہ اس میں کیا حکمت ممکن ہے، مراد ہے۔3۔مختلف اشیاء میں تمیز کرنا(مثلاََ جوان اور بچوںکی جسمانی وضع میں فرق ، رنگوں میں فرق کہ اس سے قوتِ ممیّزہ بڑھتی ہے) 4۔خیالات (مثلاََ درخت دس فٹ کا ہے، اس کی جڑ کس قدرگہری ہونی چاہیے)شامل ہیں۔
ادویہ برائے تحفظ صحت
علم طبّ بیماری سے بچنے کی یوں ہدایت کرتاہے:1۔ معدہ میں آفات کا حل: غذاء کے دو گھنٹے بعد اجوائن دیسی ،پودینہ ، سیاہ زیرہ چبائیںیا سفوف استعمال کریںاگر مسئلہ برقرار رہے توحسب ِضرورت خامرات کا استعمال کریں۔
2۔ جگر میں گرمی: بیخ کاسنی کاقہوہ پئیں۔
3۔ریاضت کے بعد جسمانی درد: وٹامِن ڈی (آئی ۔یو200000) استعمال کریں ہفتے میں ایک بار روغن کاہو سے مالش کریں۔
4۔نیند کی کمی: مرطوب غذاء کا استعمال کریں۔
5۔ برائے گردہ: پانی کی مقدار بڑھائیں، بہمن قابلِ استعمال ہے۔
6۔ اونٹنی کا دودھ روزانہ ناشتے میں استعمال کریں ، پھیپھڑوں کے امراض میں مفید اور قبض کشا ہے۔
یہ ادویات ہر مزاج کے لئیے یکساں موزوں نہیں مگر اکثر میں موزوں ہے۔
شذرات
1۔کھیل کود کے وقت یاد رکھیں کہ گردن کی پچھلی جانب چوٹ نہ آئے کہ اگر نخاع پر چوٹ آگئی تو انسان کو مرنے کے بعد بھی جھٹکے پڑتے ہیںکافی دیر تک۔
2۔گھٹنوں اور جوڑوں میں چوٹ نہ آنے دو ، ورنہ دائمی دُکھن کا خدشہ ہے۔
3۔ جب تک کھانا پوری طرح ہضم نہ ہو تب تک نہ سوئیں ، سونے سے بدہضمی کا خدشہ ہے۔
4۔وقتی کھانسی یا سردی لگنے کے آثار محسوس ہوں تو سیاہ پتی والی چائے مع ادرک استعمال کریں۔
5۔قبض ہو تو پہلے دودھ اور روغن زیتون استعمال کریں، پھر بھی کیفیت برقرار رہے تو ملین ادویہ لیں، اس کے بعد قبض کشا ادویہ لیں ورنہ درد قولنج کا خدشہ ہے۔
6۔جن اشخاص کا سینہ بچپن سے نسبتاً کمزور ہے، انھیں چاہئیے کہ سانس کی ورزش ضرور کریںاور بلغم رفع کرنے کی تدابیر کریں خواہ کوئی موسم ہو۔
7۔جن اشخاص کا حافظہ کمزور ہے انہیں ایسی یوگا کرنی چاہیے جس سے خون دماغ کی طرف جائے ، کم سے کم پچیس سیکنڈ تک کریں ۔
8۔ ہفتے بھر میں ایک دن ضرورسرسبزوشاداب علاقوں میں تفریح کریں۔ شہر آلودہ قسم کے ہیں اور آلودگی کے مضر اثرات سے بچنے کی یہی تدبیر ہوسکتی ہے۔
9۔کھانے کے فوراً بعد پانی ہر گز نہ پئیں ، درمیان میں استعمال کر سکتے ہیں، بعد میں پانی پینے سے رطوباتِ ہاضمہ کمزور ہوجاتی ہیں اور غذا فاسد ہو جاتی ہے۔
10۔ ناشتے کے بعد ہلکی ورزش کرسکتے ہیں، دوپہر اور بڑے کھانے کے فوراً بعدورزش نہ کریںسُدّے پیدا ہوجاتے ہیںاور کھانا معدے سے نیچے نہیں اُتر پاتا، گاہے ریح کی وجہ سے معدے میںدردہوتا ہے، رات کھانے کے بعد کم سے کم چالیس قدم ضرور چلیں۔
The post ہم بیماریوں سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت