تجسس سے تحقیق، تحقیق سے تبدیلی اور تبدیلی سے نئے زاویے، نئے راستے اور نئی جہات سامنے آتی ہیں۔
زندگی کی تمام تر خوبصورتی،چاشنی ،دلکشی کا دارو مدار اسی تجسس، تحقیق اور مسلسل تبدیلی پر ہے۔ابتدائے انسان سے لے کر آج تک لا تعداد تغیر وتبدل معرض وجود میں آتے رہے اور وقت کی تیز رفتاری کے بہاؤمیں صفحہ ہستی سے مٹتے گئے لیکن فطرت کے ٹھوس شواہد اور انمٹ مظاہر آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اپنا آپ منوار ہے ہیں۔ فطرت کا سب سے بڑا ثبوت انسانی وجود ہے جسے خالق کائنات نے ’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘کے اعلان کے ساتھ اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا۔
ماہرین کے مطابق انسانی وجود چار عناصر مٹی، پانی،آگ اور ہوا کے مرکب سے تخلیق کیاگیا ہے۔ہر عنصر اپنی الگ خاصیت اورپہچان کا حامل ہے۔ مٹی خشک ، پانی سرد ، آگ گرم اور ہوا تر مزاج کے خواص کے ساتھ جانے جاتے ہیں۔ انہی عناصر کے مزاج کی رو سے طبی ماہرین نے اخلاط اخذ کرتے ہوئے سودا،بلغم،صفراء اور خون کو بدن انسانی کے مرض وصحت کے ساتھ جوڑا ہے۔
کائنات کی تخلیق میں شامل عناصر کی رو سے ہر مخلوق کا مزاج گرمی،سردی،خشکی اور تری کے خواص کا حامل مانا جاتا ہے۔ چرند، پرند، حشرات الارض، حیوان،انسان، جمادات، ونباتات، معدنیات، آبی مخلوقات، اجناس، پھلوں، پھولوں، سبزیوں، ترکاریوں، اور چاند ستاروں میں بھی انہی مزاجوں (گرمی، سردی، تری اور خشکی)کا تناسب کار فرما ہے۔
جدید میڈیکل سائنس کی دریافتوں اور ایجادات سے پہلے کا انسان اپنی خاندانی روایات کی پیروی کرتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب اور خوشحال رہا ہے۔ موسمی تقاضوں کے مطابق لباس، خوراک، طرز رہن سہن اور روز مرہ معمولات اختیار کر کے وہ گرمی و سردی کی شدت اور دوسرے رونما ہونے والے ماحولیاتی عوامل سے محفوظ ومامون چلا آرہا ہے۔
ہر دور کا انسان دستیاب طبی سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے طویل العمری کے ساتھ صحت مند،توانا اورمضبوط زندگی سے لطف اندوز ہوتا آیا ہے۔بدلتے وقت کے بدلتے تقاضوں کے عین مطابق زمانے کے با شعور اور سمجھدار افراد لباس اورخوراک کے انتخاب،طرز رہن و سہن اور روز مرہ معمولات گزارنے کے لیے عام انسان کی رہنمائی کرتے رہے۔
گئے وقتوں میں بڑے بڑے انسٹی ٹیوشنز،یونیورسٹیز اور کالجز کی غیر موجودگی کے باوجود قدیم دانا،باشعور اور باصلاحیت افراد کائنات کے رازوں کو فاش کرکے انسانیت کی فلاح و بہبود ،طبعی ضروریات،معاشی،معاشرتی اور سماجی مسائل کے بہترین حل پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ماضی کے تجربات و مشاہدات آج کی جدید دور ،انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنی ارتقاء اور تمام تر ترقیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو کر اپنی صداقت اور اہمیت منوارہے ہیں۔
گوگل کی ایجاد اور لانچ ہونے سے پہلے کا انسان موجودہ دور کے نام نہاد ترقی یافتہ لوگوں سے کئی گنامطمئن، خوشحال اور آسودہ تھا۔گوگل معلومات کو بنیاد بنا کر ماضی کے کارہائے نمایاں سرانجام دینے والوں کے طے کردہ اصولوں پر انگشت زنی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ قومیں روایات سے بنتی ہیں اور روایات ہی قوموں کو زندہ رکھتی ہیں۔ طب مسلمانوں کا دینی ورثہ ہے اور بمشکل ایک صدی ماٖضی میں طبی تعلیم دینی درسگاہوں میں دی جاتی تھی۔ برصغیر پاک وہند میں طب کے احیاء اور ارتقاء میں دینی درسگاہوں کا عمل دخل رہا ہے۔
جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد ہی قدیم طب کی طرز پر علاج با الضد کے اصول پر رکھی گئی ہے۔علاض بالضد کے مطابق گرمی کا علاج سردی ،سردی کا گرمی، خشکی کا ازالہ تری اور تری کا خاتمہ خشکی سے کیا جاتا ہے۔انسانی استعمال میں ہونے والے تمام اجزائے خورونوش کا انتخاب بھی ان میں شامل طبی خواص، مزاج اور اثرات کے تحت ہی کیا جاتاہے۔جدید میڈیکل سائنس کے تحت بننے والی زیادہ تر ادویات کی تیاری ان میں شامل اجزاء کے مزاج، خواص اور طبی اثرات کے پیش نظر ہی کی جاتی ہے۔
میڈیکل سائنس میں کوئی بھی دوا تیار کرتے وقت کسی بھی مفرد نبات ، معدن یا دھات کا جزِ موثرہ کیمیائی طرز پر کشید کر کے استعمال میں لایا جاتا ہے۔جس سے دوا کی تیزی مبینہ طور پر فوائد کے ساتھ ساتھ بعض مضر اثرات بھی مرتب کرتی ہے جس کا واضح ثبوت کسی بھی جدید دوا کے رہنما بروشر پر اس کے سائیڈ ایفیکٹس کی تفصیل درج دیکھی جا سکتی ہے۔صدیاں گزرجانے کے باوجود ،تمام تر ترقیاں روپزیر ہونے کے با وجود،جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی دریافت ہونے کے باوجود، آخر کیا وجہ ہے کہ جدید میڈیکل کالجز میں آج بھی صدیوں قبل بو علی سینا کی تصنیف ’’القانون فی الطب‘‘ کا نام بگاڑ کر ہی پڑھائی جارہی ہے۔
ہم لوگ گوگل کی پیروی اور عشق میں کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ہمارے اسلاف، اکابرین اور بزرگ اپنے خاندانی مفروضوں اور علاقائی روایات پر عمل پیرا رہے ، انسانی صحت مثالی رہی، وہ سادہ خوراک کھاکر بھی سدا جوانی، خوبصورتی، توانائی اور صحت مندی کے ساتھ لمبی عمر پاتے رہے۔ جدید دور کے مہلک، اذیت دہ اور خطرناک امراض کا وجود تک نہ تھا۔گوگل پر موجود اکثر و بیشتر معلومات وہی ہوتی ہیں جو کسی جریدے،رسالے، میگزین یا اخبار میں شائع ہو چکی ہوتی ہیں۔ یا پھر بعض بزعم خود محققین و سائنسدان اپنے نظریے اورسوچ کے مطابق معلومات شائع کردیتے ہیں۔
آج گوگل پر موجود طبی معلومات میں زیادہ تر وہی ہیں جو قدیم اطباء بڑی عرق ریزی کے بعد دریافت کر کے کتب میں محفوظ کر گئے تھے۔ پھلوں، سبزیوں،پھولوں اور اجزائے خورو نوش کے طبی خواص، استعمال اور اثرات قدیم اطباء کے دریافت کردہ ہی ہیں۔گوگل اس لحاظ سے مفید اور بہت ہی اچھا فورم ثابت ہورہا ہے کہ ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں ہر طرح کی معلومات مہیا کر رہا ہے لیکن ان ماہرین کے ساتھ زیادتی بھی ہورہی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے مقاصد پر تیاگ دیں لیکن آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔
پرانے اور روایتی مفروضے چھوڑنے اور جدت اپنانے سے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ آج ہم مبینہ طور پر دودھ کے نام پر کھاد، کیمیکل، سرف، بال سفا پاؤڈر اور اسی طرح کے نا معلوم کتنے ہی مضر صحت اجزا پینے پر مجبور ہیں۔ قدرتی اجزائے خورونوش کی بجائے مصنوعی طرز پر کیمیکلز سے تیار مصنوعات استعمال کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھروں میں پھل اور سبزیاں ،خالص دودھ ،آٹا ،مرچ مسالہ جات ہوں یا نہ ہو لیکن مختلف امراض کی ادویات لازمی پائی جاتی ہیں۔ چند گنتی کے لوگوں اور گھروں کو چھوڑ کر غذا کھانے سے زیادہ دوا کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔ آج نومولود بچوں میں گردوں ،جگر،دل اور دماغ کے امراض کی افزائش پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو، نومولود بچوں میں ذیابیطس جیسا موذی مرض پیدا ہونے لگا ہے۔نوجوانوں میں بلوغت کی عمر نو ، دس سال تک آ پہنچی ہے۔اوسط عمر 35 سال تا 45 سال تک رہ گئی ہے۔
جب تک لوگ دہی ناشتے اور دودھ رات میں استعمال کرتے رہے،قبض سے محفوظ اور پر سکون نیند کے ساتھ صحت کے معاملے میں آسودہ حال رہے۔جب سے دہی رات اور دودھ ناشتے میں آگیا ہے، پیٹ کے مسائل اور نیند کی خرابی عام ہوچکی ہے۔ جب تک لوگ’ مسر‘ کو گرم سمجھ کر اس کے استعمال میں محتاط رہے تب تک ہیپاٹائٹس جیسے جان لیوا مرض کا کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا، آج جب مسر کا بے دریغ استعمال عام ہوا ہے تو ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد بھی عام ہوگئی ہے۔
جب تک ہم اپنے بزرگوں کے کہے کو مان کر تربوز اور کھیرے کے بعد پانی نہیں پیتے تھے تب تک ہم بڑھے ہوئے پیٹ،شوگر، موٹاپے،بلد پریشر اور بواسیر جیسے اذیت ناک امراض سے بھی محفوظ رہتے تھے لیکن آج بچے، جون اور بوڑھے سبھی موٹاپے ،شوگر اور بلڈ پریشر کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ماحول ، موسم اور آب وہوا ہمیشہ سے ہی متاثر کرتے آئے ہیں اور ہر ملک ، ہر خطے اور ہر علاقے کی خورونوش کی عادات اسی لیے جدا جدا ہوتی ہیں کہ موسمی اور ماحولیاتی تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں۔ یورپی ممالک میں میدے سے بنی مصنوعات اور فاسٹ فوڈز اس لیے بھی زیادہ استعمال ہوتی ہیں کہ وہاں سرد اور مرطوب آب ہوا ہونے کی وجہ سے بھرپور اور دیر ہضم غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سادہ اور زود ہضم غذائیں کھا نے سے بھوک کا احساس باربار ہوگا جس سے نظام زندگی متاثر ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں گرم وخشک موسم ہونے کے سبب میدے سے بنی مصنوعات اور فاسٹ فوڈز دیر ہضم ہونے کے سبب معدے میں تبخیر، گیس ، بد ہضمی اور قبض کا باعث بن کر لا تعداد بیماریاں پھیلا رہی ہیں۔بنگلہ دیش اور اندو نیشیا کا موسم مرطوب ہے وہاں کے لوگوں کو مچھلی سمیت توانائی سے بھرپور غذا کی ضرورت رہتی ہے جبکہ ہمارے ہاں گرم اثرات کے سبب مثانے،گردے اور جگر کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔’ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ‘ کے مصداق ہم نے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے شوق میںاپنی سب سے بڑی دولت داؤ پر لگا رکھی ہے اور افسوس یہ ہے کہ ہمیں با شعور ، با صلاحیت اور سمجھدار ہونے کے با وجود اس کا ادراک تک نہیں ہے۔
میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں با لخصوص’’ متاثر کن‘‘ دوست جو عوام میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے قابل تقلید بھی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ہماری نئی نسل کو اپنی روایات ، فطری اجزائے خورو نوش اور صحت افزاء روز مرہ معمولات سے متنفر کرنے کی بجائے ان سے مانوس کریں۔
ورنہ جس تیزی کے ساتھ نت نئی بیماریاں اور بدنی مسائل سامنے آرہے ہیں، مستقبل قریب میں صحت مند افراد کم یاب ہی نہیں نایاب ہی ہوجائیں گے۔ جدید ایجادات اور سائنسی دریافتوں سے مستفید لازمی ہوں ، ہمارے لیے یہ بھی اللہ کریم کی نعمتیں ہی ہیں ،ان کی قدر کریں لیکن جدت کے چکر میں اپنی قدیم روایات سے ہر گز منہ نہ موڑیں۔قدیم روایات بھی ایک سائنس کا درجہ ہی رکھتی ہیں،ہمارے بزرگوں کے بزرگوں نے مسلسل مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ان کے نتائج طے کیے ہیں۔ خدارا ! ان روایات کو مفروضوں اور متھ کا نام دے کر نئی نسل سے ہمارے اسلاف کا ورثہ چھیننے کی کوشش نہ کی جائے۔
The post قدیم طبی روایات کی اہمیت سے انکار کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت