’’فیصل آباد کے ہوٹل روم کا ماحول اس وقت تناؤ سے بھرپور تھا، وہاں موجود دونوں شخصیات اس وقت الجھن میں دکھائی دی رہی تھیں،ان میں سے ایک نے خاموشی کا خاتمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم آپ کی قیادت سے مطمئن نہیں اس لیے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آپ کو اختیار دیتے ہیں باعزت طریقے سے خود مستعفی ہو جائیں ورنہ ہمیں برطرفی کا پریس ریلیز جاری کرنا پڑے گا‘‘ یہ باتیں سننے کے بعد دوسری شخصیت کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور انھوں نے کہا ’’جناب آپ پریس ریلیز ہی جاری کر دیں میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘ او کے جیسے آپ کی مرضی، یہ کہہ کرسوٹ بوٹ میں ملبوس وہ صاحب واپس چلے گئے،کچھ دیر بعد ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلنے لگی کہ ’’سرفراز احمد کو قومی ٹیم کی قیادت سے برطرف کر دیا گیا ہے‘‘ ہمیشہ ہاں کہنے والے سرفراز نے اس دن وسیم خان کو پہلی بار ناں کہا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس دن پریس کانفرنس میں سوٹ پہنے اظہر علی کی ہنستی مسکراتی تصویر شاید آپ کو اب بھی یاد ہو، پریس ریلیز میں سرفراز کی ’’خدمات‘‘ کو سراہتے ہوئے بورڈ نے اظہر کی تعریفوں کے پل باندھے تھے، آج ایک اور پریس ریلیز آئی ہے، اس میں نام تبدیل ہو گئے، اظہر کی جگہ بابر اعظم آ گئے اور سرفراز کے بدلے اظہر کا نام آ گیا۔
فیصلوں میں تسلسل کے دعوے کرنے والا بورڈ ایک سال بعد ہی یوٹرن لینے پر مجبور ہو گیا،اس سے قبل جب مصباح الحق کو چیف سلیکٹر کے ساتھ ہیڈ کوچ کی ذمہ داری سونپی گئی تب بھی ناقدین چلاتے رہے کہ یہ فیصلہ کامیاب نہیں ہوگا لیکن بورڈ نے کسی کی نہ سنی،پھر اچانک ان سے بھی ایک ذمہ داری واپس لے لی، اس میں کوئی راز نہیں کہ وجہ ان دونوں کی محمد حفیظ کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بنی، تینوں نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بندش سے بے روزگار ہونے والے کرکٹرز کا مقدمہ پیش کیا۔
گوکہ فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی مگر بورڈ حکام کی انا کو ٹھیس لگ گئی، یہ کرکٹرز کیسے سرپرست اعلیٰ سے ملنے پہنچ گئے یہ سوچ کر ہی انھیں غصہ آنے لگا،یہ نہ سوچا کہ وزیر اعظم سابق کپتان بھی ہیں، حکام کا پہلا نشانہ مصباح بنے تھے،اب اظہر کا نمبر آ گیا،اگلی باری حفیظ کی ہے جو1،2 میچز میں ناکام ہوئے تو نام پر سابق کرکٹرکا لیبل لگ جائے گا، اگر بورڈ واقعی کرکٹ کی بہتری کیلیے کسی نوجوان کپتان کا تقرر کرنا چاہتا تو جب بابر کو محدود اوورز میں ذمہ داری سونپی تب ہی کیوں یہ اعلان نہ کیا،چاہے بیٹنگ ہو یا عام زندگی اظہر میں مصباح کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
دونوں ایک دوسرے کے خاصے قریب بھی ہیں، عام طور پر بورڈ سے محاذ آرائی نہیں کرتے اس لیے حکام کی گڈ بکس میں رہتے ہیں، مگر ایک جراتمندانہ فیصلے نے دونوں کونقصان پہنچا دیا، بورڈ نے ان کیخلاف کارروائی کر کے جہاں اپنی انا کو تسکین پہنچائی وہیں دیگرکرکٹرز کو حد میں رہنے کا پیغام بھی دیا کہ جب ہم مصباح اور اظہر کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں تو تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو۔ اب بابر اعظم تینوں طرز میں پاکستانی ٹیم کے کپتان ہیں، وہ ہمارے بہترین بیٹسمین بھی ہیں، ایکدم سے ان پر اتنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا گیا وہ کیسے اٹھا پائیں گے۔
ہماری بیٹنگ کا یہ حال ہے کہ بابر آؤٹ تو ٹیم آؤٹ، انھیں بھی اس بات کا احساس رہتا ہے اس لیے پورے انہماک سے کھیلتے ہیں، اب قیادت کی وجہ سے مزید دباؤ ہوگا، سرفراز کے ساتھ بھی ایسا ہوا،انھوں نے اپنے سے زیادہ ٹیم کیلیے سوچنا شروع کیا جس سے انفرادی کارکردگی متاثر ہوئی، پھر نہ صرف کپتانی بلکہ اسکواڈ میں جگہ بھی چھن گئی، اظہر اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں ٹیسٹ ٹیم میں برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے، مگر ایسا زیادہ دنوں تک نہیں چلے گا۔
انگلینڈ کیخلاف آخری ٹیسٹ میں انھوں نے سنچری بنائی تھی ایسے میں باہر نکالنے کا کوئی جواز نہیں تھا، البتہ اگر نیوزی لینڈ میں وہ بڑی اننگز نہ کھیل پائے تو شاید کمنٹری کے شعبے کو مستقل طور پر اپنانے کی راہ ہموار ہو جائے، کیویز کے دیس میں پاکستانی ٹیم اکثر جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہے،بابر کو اب زیادہ ذمہ داری سے کھیلنا ہوگا، امید ہے کہ دوہری ذمہ داری سے ان کا کھیل متاثر نہیں ہوگا لیکن کم عمری میں ان پر اتنا دباؤ ڈالنا شاید درست ثابت نہ ہو، سب سے اچھا تو یہ ہوتا کہ سرفراز کو ٹیسٹ میں کپتان برقرار رکھا جاتا، بابر محدود اوورز میں ذمہ داری سنبھالتے،یوں ٹیم کچھ عرصے میں سیٹ ہو جاتی لیکن بورڈ کے بقراطوں نے ایسا نہ کیا، اب وہ اظہر کے پیچھے پڑ گئے ہیں، اگر خدانخواستہ بابر کی فارم متاثر ہوئی تو اگلا نمبر ان کا ہو گا۔
یہ بورڈ والے خود تو تین، تین سال کیلیے معاہدے کرتے ہیں مگر کپتان کا تقرر محدود مدت کیلیے ہوتا ہے، اپنے معاہدے میں لکھوایا ہوتا ہے کہ اگر تکمیل سے قبل عہدے سے ہٹایا تو ایک سال کی تنخواہ دینا ہوگی، بیچارے کھلاڑیوں کو جب چاہے ہٹا دیا جاتا ہے، آپ کپتان کیوں 2،3 سال کیلیے نہیں بناتے، بابر کو سونپ دیں 2023 تک کیلیے ذمہ داری، چاہے اس دوران نتائج کچھ بھی ہوں انھیں کسی صورت عہدے سے نہ ہٹایا جائے، مگر ایسا نہیں ہوگا، یہاں کھلاڑیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے مگر بورڈ حکام بہت اہم ہیں، یہ نہ بھولیں کہ یہ جو 3.8 بلین روپے کا رواں برس منافع ہوا ہے یہ انہی کرکٹرز کی وجہ سے ہے۔
اگر یہ نہ ہوں توآپ کی ساری شان و شوکت بھی ختم ہو جائے، ان کھلاڑیوں کی وجہ سے ہی اسپانسر شپ ملتی ہے، ان کو عزت دیں، مطلب نکل جانے پر دودھ میں مکھی کی طرح نکال کر باہر نہ پھینکیں، آپ نے سرفراز اور اظہر کے ساتھ تو ایسا کر دیا اب بابر کو بخش دے گا،برسوں بعد پاکستان کو اتنا زبردست کرکٹر ملا ہے اس کی قدر کرے گا، وہ اگر وزیر اعظم سے کبھی ملاقات کر لے تو بھی ناراض نہ ہو گا، باقی کرکٹرز بے روزگار ہو گئے تو ہونے دیں، اب مصباح اور اظہر کا حشر دیکھ کر کھلاڑی سچ بولنے سے قبل بھی سو بار سوچیں گے، بورڈ حکام سب کچھ اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو رہے ہیں، انھیں یہ مبارک ہو۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post اظہر علی اپنوں کے ہاتھوں ہی بولڈ appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل