میلبورن: ماحول دوستوں کے لیے آسٹریلیا سے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ نینو عمل انگیز (کیٹے لِسٹ) کی مدد سے استعمال شدہ تیل سے بایو ڈؑیزل تیار کیا گیا ہے۔ اسی طریقے سے بچے ہوئے کھانے، خردبینی پلاسٹک اور پرانے ٹائروں سے بھی مفید اشیا تیار کی جاسکتی ہیں۔
میلبورن کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے زرعی فضلے اور استعمال شدہ کھانے کے تیل کو ایک سرامک اسفنج سے خامرہ جاتی بایوڈیزل میں تبدیل کیا ہے۔ اسفنج میں لاتعداد خردبینی سوراخ ہوتے ہیں جن میں تیل گزرتا ہے تو کیمیائی عمل واقع ہوتا ہے اور یوں کھانے کا تیل بایوڈیزل میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے سواریوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں فالتو غذا، باریک پلاسٹک اور پرانے ٹائروں سے ادویہ، صنعتوں، پیکنگ اور مصنوعی کھاد کے لیے اہم اجزا بھی بنائے گئے ہیں۔
اسفنج میں دو طرح کے باریک سوراخ ہیں جن میں استعمال شدہ اور آلودہ تیل ڈالا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کیمیائی عمل ہوتا ہے جبکہ یہی تیل دوسرے سوراخوں میں سے گزرتا ہے تو وہاں نینو ذرات سے ایک اور تعامل ہوگا ہے۔ اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ایڈم لی کہتے ہیں کہ اس ٹھوس اور سستے عمل انگیز کی تیاری بہت آسان ہے۔ اسے کم توانائی کی ضرورت کے ساتھ بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے اور فالتو کوکنگ آئل بایو ڈیزل میں بدل جاتا ہے۔
اسی عمل سے غریب ممالک کے کسان اپنا ایندھن خود بناسکتے ہیں۔ چاول کا پھوگ ہو یا پھر اناج کا کوئی بھوسہ، اسے دنیا بھر میں جلایا جاتا ہے جس سے فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کاربن والے زرعی کچرے سے کو مفید ایندھن میں بدل سکتی ہے۔
اسی ٹیکنالوجی سے گنے کے پھوگ، پھلوں کے چھلکوں اور سڑی گلی سبزیوں کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن ہے۔ بس حسبِ ضرورت عمل انگیز میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ پروفیسر ایڈم کے مطابق اس کا پہلا عملی نمونہ ایک دو برس میں پیش کردیا جائے گا۔
The post پرانے ٹائر، پلاسٹک اور تیل کو مفید اجزا میں بدلنے والی نینوٹیکنالوجی appeared first on ایکسپریس اردو.