کورونا کی وجہ سے کھیلوں کے میدانوں پر ویرانی کے دور میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز نے بہادرانہ قدم اٹھاتے ہوئے انگلینڈ میں سیریز کھیلنے پر آمادگی ظاہر کی۔
دونوں ملکوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل کلیئرنس کے بعد کھلاڑیوں کو روانہ کیا،میزبان بورڈ کی میڈیکل ٹیم اور متعلقہ حکومتی اداروں نے بھی بائیو سیکیورٹی کیلئے بہترین اقدامات کیے،دونوں سیریز میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا،اس کامیاب تجربے نے آئرلینڈ اور پھر آسٹریلیا کا بھی حوصلہ جوان کیا اور ٹیمیں خیر و عافیت سے میچز کھیل کر اپنے وطن واپس گئیں، کورونا کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے بھارت تو اپنی لیگ کا انعقاد یواے ای میں کروانے پر مجبور ہوا۔
دوسری جانب پاکستان نے پی ایس ایل میچز کیساتھ زمبابوے کی میزبانی بھی کی،نیوزی لینڈ میں کورونا کی صورتحال قابو میں اور کیسز بہت ہی کم ہیں، ان میں سے بھی زیادہ تر بیرون ملک سے آنے والوں کے قرنطینہ کے دوران سامنے آرہے ہیں،وائرس کا شکار ہونے والے اپنے اور غیر ملکی شہریوں کو کلیئر ہونے پر ہی آئسولیشن سنٹرز سے جانے کی اجازت دی جاتی ہے،قوانین انتہائی سخت ہونے کی وجہ سے دیگر ملکوں کے لوگ نیوزی لینڈ جانے سے گریز کررہے ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان نے اپنی ٹیم بھجوانے کا فیصلہ کیا تو کئی غلطیاں کی گئیں، انگلینڈ نے ٹیموں کو لانے کیلئے چارٹرڈ طیارے کا خرچہ اٹھایا، پاکستان میں 10کرکٹرز کے ٹیسٹ مثبت ضرور آئے لیکن راستے میں کوئی کھلاڑی وائرس کی زد میں نہیں آیا،نیوزی لینڈ کا سفر طویل تھا، براہ راست کوئی پرواز بھی نہیں تھی، دبئی میں طیارے کی تبدیلی ضروری تھی،اس کے باوجود پی سی بی نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ سے چارٹرڈ کا مطالبہ کرنے کے بجائے کمرشل پرواز سے جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔
دوسری بڑی غلطی پاکستان شاہینز کے کھلاڑیوں کو عام مسافروں کے ساتھ بٹھانے کی گئی،انہوں نے راستے میں مشترکہ واش روم استعمال کئے، دبئی میں بھی مختصر قیام کے دوران بھی بائیو ببل سے باہر رہے،جہاز میں آپس میں ملتے جلتے اور انٹرویوز بھی دیتے رہے جس کی وجہ سے سکواڈ میں وائرس منتقل ہوتا رہا۔
پاکستانی سکواڈ نے کرائسٹ چرچ کے نواح میں واقع لنکن یونیورسٹی کے ہوٹل میں ڈیرے ڈالے تو تلخ تجربات سے گزرنا پڑا،پہلی ٹیسٹنگ میں ہی 6کھلاڑیوں کی رپورٹس مثبت آنے کیساتھ کورونا پروٹوکولز کی خلاف وزری کے الزامات بھی سامنے آگئے، ماسک پہنے بغیر کھانا وصول کرنا اور کمروں سے باہر جھانک کر فاصلے سے ایک، دوسرے کیساتھ بات کرنا جرم بن گیا، دورہ منسوخ کرنے کی دھمکی سے بھی گریز نہیں کیا گیا، ٹرے کے بجائے ڈبوں میں کھانا ملنے لگا۔
نیوزی لینڈ آمد کے بعد نویں روز تک 3بار کی ٹیسٹنگ میں مجموعی طور پر 10ارکان کی رپورٹس مثبت آئیں، ان میں 4 ماضی میں وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے پازیٹو آئے تھے، انہیں نان انفیکشیس کیسز قرار دیتے ہوئے دیگر کلیئر کھلاڑیوں کے فلور پر رہنے کی اجازت مل گئی تھی،جمعرات کو ہونے والی چوتھی ٹیسٹنگ کی رپورٹس جمعہ کو موصول ہونا تھیں،ان کا بڑی بیتابی سے انتظار کرتے ہوئے توقع کی جارہی تھی کہ کوئی نیا کیس سامنے نہ آنے پر کلیئرنس پانے والے کرکٹرز کو 14روزہ آئسولیشن کی باقی دنوں میں اپنے گروپس میں ٹریننگ کی اجازت مل جائے گی، اس کے بعد 8دسمبر کو گھومنے پھرنے اور وینیوز پر پریکٹس کی آزادی بھی حاصل ہوجائے گی۔
کمروں میں مقید رہتے ہوئے صرف مخصوص وقت اور مقام پر چہل قدمی کرنے والے کرکٹرز کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسکواڈ کے 54 میں سے 44 ارکان کی رپورٹس منفی آگئیں، باقی ماندہ 10 میں سے 6 پازیٹو اور 4 ہسٹارک ارکان کا روزانہ کی بنیاد پر ہیلتھ چیک اپ کیا جارہا ہے، ان کے ٹیسٹ نہیں لیے گئے، ایک رکن آکلینڈ میں موجود ہیں، جہاں ان کی چوتھی ٹیسٹنگ کی گئی لیکن جن کی مسلسل 4رپورٹس منفی آئی ہیں،ان کو بھی ٹریننگ کی اجازت دینے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے، نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے اپنے اعلامیہ میں مہمان سکواڈ کو اپنی 14 روزہ آئسولیشن کی مدت ہوٹل میں ہی پوری کرنے کی ہدایت کردی۔
اس صورتحال پر پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے حکام سے رابطہ کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا اور رپورٹس عام نہ کرنے پر بھی تحفظات ظاہر کئے، انہوں نے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور کپتان بابر اعظمکو بھی فون کرکے حوصلہ بڑھایا۔
بعد ازاں پی سی بی نے اس مشکل صورتحال میں دورہ نیوزی لینڈ جاری رکھنے کے حوالے سے کھلاڑیوں کی رائے بھی طلب کرلی،ہیڈ کوچ مصباح الحق اور کپتان بابر اعظم سے کہا گیا کہ پلیئرز سے بات چیت کے بعد صورتحال سے آگاہ کریں گے، اگر وہ موجودہ حالات میں بھی سیریز کھیلنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوئے تو ٹور جاری رہنے کے امکانات ہوں گے، بڑی جرات مندی کی بات ہے کہ قومی کرکٹرز نے سخت ذہنی دبائو کے باوجود دورہ جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سمیع الحسن برنی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں کھلاڑیوں کی رائے لینا بھی ضروری تھا، انہوں نے مشکل وقت نکال لیا، اب کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کرکٹرز آج ہونے والی آخری جانچ میں کلیئرنس پاکر معمول کی سرگرمیاں شروع کرنے کا شدت سے انتظار کررہے ہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حالات اور محدود وقت میں مہمان کرکٹرز مضبوط میزبان ٹیم کیخلاف میچز کیلئے کیسی تیاری کرپاتے ہیں۔
ایک اچھا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان شاہینز کو پہلا میچ کھیلنے کے بجائے پورے مہمان سکواڈ کو ایک ساتھ بھرپور پریکٹس کا موقع دینے کا پلان بنایا گیا ہے، نیوزی لینڈ اے کے ساتھ پہلا 4 روزہ کرکٹ میچ منسوخ کردیا گیا، آئسولیشن میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ میں تاخیر کی وجہ سے پی سی بی نے تاریخوں میں تبدیلی یا منسوخی کی درخواست کی تھی، قرنطینہ کی مدت پوری ہونے کے بعد قومی کرکٹرز اب کوئنز ٹاؤن میں متعدد انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچز کھیلنے کو ترجیح دینگے، تمام ارکان 8 دسمبر کو کوئنز ٹاؤن روانہ ہوں گے مگر اس سے قبل ہر رکن کو انفرادی طور پر نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کی کلیئرنس درکار ہوگی۔
کوئنز ٹاؤن پہنچنے پر قومی کرکٹ ٹیم اور پاکستان شاہینز کا اسکواڈ علیحدہ علیحدہ ہوٹل میں قیام کرے گا، پریکٹس میچز کے بعد پاکستان شاہینز کا اسکواڈ 14 دسمبر کو وانگرائے، قومی اسکواڈ اگلے روز آکلینڈ روانہ ہوگا جہاں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ 18 دسمبر کو آکلینڈ میں کھیلا جائے گا، پاکستان شاہینز اور نیوزی لینڈ اے کے مابین واحد 4 روزہ میچ 17 دسمبر سے شروع ہوگا، کپتان بابر اعظم پر امید ہیں کہ میسر وقت میں بہتر تیاریاں کرتے ہوئے ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ زندگی میں ہمیں کئی بار مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کرکٹ چیلنجز کا مقابلہ کرنا سیکھتے ہیں، کھلاڑی کے باہمی ربط میں مضبوطی آئی ہے، سینئرز اپنے گروپ میں موجود نوجوان کرکٹرز سے مکمل رابطے میں ہیں، سب ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں، گراؤنڈ میں پریکٹس کی کمی محسوس ہورہی ہے، کرکٹ کی بھوک بڑھ گئی، سب چاہتے ہیں کہ جلد سرگرمیوں کا آغاز کریں، میدان میں اتریں تو پہلے جو بھی ہوا پیچھے رہ جائے گا، صرف کھیل پر توجہ مرکوز ہوگی۔
کپتان نے بلند عزائم کا اظہار تو کردیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ویسٹ انڈیز کیخلاف بھرپور فارم میں نظر آنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم کا پاکستانی کرکٹرز کیسا مقابلہ کرتے ہیں،ٹی ٹوئنٹی میں شاید مہمان اچھا مقابلہ کریں، ٹیسٹ میں بہتر کمبی نیشن بنتا نظر نہیں آتا،دونوں فارمیٹ میں سب سے بڑا چیلنج کیوی کنڈیشنز سے ہم آہنگی ہے جس میں ماضی کے کئی نامور کرکٹرز بھی ناکام ہوتے رہے ہیں۔
The post شکلات کا دریا عبور کرکے کرکٹرز میدان میں اترنے کیلئے تیار appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل