پاکستانی اور گورے کرکٹرز کا فرق

اگر آپ کسی ایسے شہر میں رہتے ہوں جہاں کرکٹ میچز کا انعقاد ہوتا رہتا ہے تو یقینا کبھی نہ کبھی ٹریفک جام میں ضرور پھنسے ہوں گے، زمبابوے کی ٹیم بھی آئی ہو تو سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں،کراچی میں تو اسٹیڈیم کے قریب 2بڑے اسپتالوں میں بھی مریضوں کا جانا دشوار ہوجاتا ہے، وہاں کے رہائشی لوگ بڑی مشکل سے اپنے گھرواپس جا پاتے ہیں، سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں، مہمانوں کو سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول ملتا ہے، غیرملکی پلیئرز کی ہر فرمائش فوراً پوری کر دی جاتی ہے۔

یہاں وہ اپنے آپ کو بادشاہ تصورکرنے لگتے ہوں گے مگر پھر اپنے ملک واپس جا کرجب خود سامان اٹھا کر ایئرپورٹ سے باہر جائیں تو قدم زمین پر آ جاتے ہیں، کوئی بھی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے تو ہم اس کے احسان مند ہوتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ یہ اگر نہ آتی تو نجانے کیا ہوجاتا، سیکیورٹی حالات بہتر ہونے کے باوجود ہم ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں کہ غیرملکی کرکٹرز یہاں آ گئے یہ بہت بڑا احسان ہے، نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ ہوا یا انگلینڈ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے کبھی کرکٹ نہیں رکی،البتہ پاکستان طویل عرصے تک نوگو ایریا بنا رہا، اب بھی ٹور پر لانے کیلیے منت سماجت کرنا پڑتی ہے، پھر اس کا کریڈٹ لیا جاتا ہے کہ فلاں صاحب کی کوششوں سے فلاں ٹیم آ رہی ہے، مہمان نوازی تو خیر ہم پاکستانیوں کے خون میں رچی بسی ہے۔

ماضی میں جب دنیا دہشت گردی سے پاک تھی تب بھی جو ٹیمیں یہاں آتیں انھیں بھرپور پروٹوکول دیا جاتا تھا، اس کے بدلے میں یقیناً ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑی بھی جب باہر جائیں تو ان کا بھرپور خیال رکھا جائے لیکن افسوس ایسا ہوتا نہیں ہے،اس میں ہمارے کرکٹ بورڈ کا بھی قصور ہے جو اپنے کھلاڑیوں کو خود کچھ نہیں سمجھتا، اسے لگتا ہے کہ ان کا کیا ہے ہر حال میں خوش رہیں گے کچھ بولا تو شوکاز نوٹس جاری کر دیں گے،آپ دور? نیوزی لینڈ کی مثال سامنے رکھ لیں 10 دن ہو گئے کھلاڑی الگ الگ چھوٹے سے کمروں میں بند ہیں جہاں انھیں ایک ٹی وی کی سہولت حاصل ہے، اگر یہ موبائل فون کا دور نہ ہوتا تو وہ اپنے سر دیواروں پر مار رہے ہوتے، ایک دوسرے سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں، چند منٹ کی واک کے دوران دور سے علیک سلیک ہو جاتی ہے۔

فوجی اہلکار مستعد کھڑے ہوتے ہیں جو قریب آنے پر فوراً ٹوک دیتے ہیں، جب سے بغیر ماسک پہنے کھانا اٹھانے اور کمروں کے دروازوں پر کھڑے رہ کر گفتگو پر پلیئرز کی سرزنش ہوئی اور دورہ ہی ختم کرنے کی دھمکی ملی سب ویسے ہی بہت ڈرے ہوئے ہیں، ٹور پر جانے سے پہلے اپنے بورڈ نے بھی کہہ دیا تھا کہ اگر ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوئی تو اگلی فلائٹ سے واپس بھیج دیں گے اور ڈسپلنری ایکشن بھی لیا جائے گا، نیوزی لینڈ کورونا سے تقریباً پاک ملک ہے ان کا احتیاط کرنا سمجھ میں آتا ہے مگر پھر بھی ٹیم کو کچھ تو سہولتیں دی جا سکتی ہیں، کیا کھلاڑی ہوٹل میں ایس او پیز کی معمولی خلاف ورزی کے دوران وائرس کا شکار ہوئے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہوگا، ہمارے کرکٹ بورڈ کے بقراطوں کا اس میں کردار ہے۔

جنھوں نے ٹور سے پہلے زیادہ ٹیسٹ لینا مناسب نہ سمجھا اور پھر شاہینز کے کرکٹرز کو اکانومی کلاس میں عام مسافروں کے ساتھ بٹھایا جبکہ سینئر ٹیم نے بزنس کلاس میں سفر کیا پھر سب لاؤنج،ایئرپورٹ اور ہوٹل میں یکجا بھی ہوئے، معاملہ یہیں سے خراب ہوا ہوگا، اس سے پہلے قائد اعظم ٹرافی اور پی ایس ایل کے دوران پلیئرز بیمار ہوتے رہے مگر کسی میں وائرس نہیں پایا گیا، ان میں سے کئی نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک میں جا کر ہسٹوریکل کیسز قرار پائے یعنی انھیں کورونا پہلے کبھی ہوا تھا، بائیو ببل کی خلاف ورزی کے کئی واقعات سامنے آئے تھے۔

اب ان غلطیوں کا خمیازہ پلیئرز کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، چند ٹیسٹ مثبت آئے تو کھانا بھی پلیٹوں کے بجائے ڈبوں میں ملنے لگا، کمروں کی 10 دن سے صفائی نہیں ہوئی،جو کھلاڑی کلیئر ہیں ان کے ساتھ کیوں اچھوتوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے؟ ایم او یو سائن کرتے ہوئے پی سی بی کے بڑوں کو یہ نہیں لکھوانا چاہیے تھا کہ تین دن بعد جو کھلاڑی کلیئر ہوں گے انھیں پریکٹس کرنے دی جائے گی،مثبت ٹیسٹ والوں کو ضرور آئسولیشن میں رکھیں، سب کیلیے14دن تک کی قید تنہائی پر کیوں اتفاق ہوا؟چارٹرڈ فلائٹ کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ اتنا بڑا اسکواڈ اگر بھیجا تو الگ کمرشل فلائٹس پر بزنس کلاس سے بھیجتے، الگ ہوٹلز میں قرنطینہ کراتے تاکہ سب ایک ساتھ نہ پھنستے، مگر بورڈ نے سوچا ہو گا کہ اپنے کھلاڑیوں کا کیا ہے، انھیں تو کمروں میں 20 دن بھی بند رکھو کچھ نہیں کہیں گے۔

میڈیا منیجر سے کہہ کر کسی سے بھی انتظامات کی تعریف پر مبنی ویڈیو بنوا لیں گے، مجھے بابر اعظم کی ویڈیو دیکھ کر بھی افسوس ہوا، کپتان بھی بیچارہ دل کی بات نہیں بول سکتا اور لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھنا پڑتا ہے، ایسے میں دوسروں سے کیا امید رکھیں، اب بورڈ کہہ رہا ہے کہ کھلاڑیوں سے دورہ جاری رکھنے کا پوچھا انھوں نے اتفاق کیا ہے، کیا کسی پاکستانی کھلاڑی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ کہہ سکے کہ ہماری تیاریاں اچھی نہیں ہیں اور ہم ذہنی طور پر پریشان ہیں لہٰذا نہیں کھیل سکتے؟ سب بیچارے جانتے ہیں کہ اگر ایسا کیا تو کیریئر پر ہی فل اسٹاپ لگ جائے گا۔

اب آپ امید رکھیں گے کہ چند دن کی پریکٹس کے بعد ٹیم سیریز جیت کر آئے،کرکٹ ضرور کرائیں لیکن اپنے کرکٹرز کا بھی خیال رکھیں، لاہور کے آرام دہ کمروں میں پانی بھی ملازم سے مانگ کر پینے والے پی سی بی حکام کو کیا اندازہ ہو گا کہ نیوزی لینڈ میں کھلاڑیوں کا کیا حال ہے، ان کے گھر والے پاکستان میں کس ذہنی اذیت سے گذر رہے ہیں، کیا ہم اپنے ملک میں نیوزی لینڈ کو14 روزہ قرنطینہ کا کہہ سکتے ہیں، کیا ہم میں اتنی ہمت ہے کہ انھیں کمروں میں بند کر کے ڈبوں میں کھانا دیں اور باتھ روم بھی خود صاف کرنے کا کہیں، یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن ہم اپنے کھلاڑیوں سے یہ سب کچھ کرنے کی امید رکھتے ہیں کیونکہ پاکستانی اور گورے کرکٹرز میں یقینا بڑا فرق ہوتا ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post پاکستانی اور گورے کرکٹرز کا فرق appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں