کورونا وائرس زیادہ خطرناک ہو رہا ہے؟

اللہ تعالی رحیم وکریم ہیں ،اسی باعث بارگاہ الہی میں در ِتوبہ ہمہ وقت کھلا رہتا ہے۔ساتھ ساتھ رب ِکائنات نے بنی نوع انسان کے لیے ایسے اسباب بھی مہیا فرمائے جو اُسے شیطان کا چیلا بننے سے روک سکیں اور سامانِ عبرت بن جائیں۔

بیماری ہی کو لیجیے۔انسان کسی مرض کا نشانہ بنے تو ساری ہیکڑی بھول جاتا ہے۔تب اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور دولت وشہرت کوئی معنی نہیں رکھتیں۔بقول شاعر:

کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد، سیم و زر

جو پُونجی بات میں بکھرے گی، پھر آن بنے جاں اوپر

نقارے، نوبت، بان، نشان، دولت، حشمت ،فوجیں، لشکر

کیا مسند، تکیہ، مُلک، مکاں، کیا چوکی، کرسی، تخت ،چھپر

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا ،جب لاد چلے گا بنجارا

کسے خبر تھی کہ طبی سائنس کے جدید ترین دور میں ننھا سا وائرس پوری دنیا ہلا کر رکھ دے گا۔اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساڑھے بائیس لاکھ انسان مار ڈالے اور کوئی وائرس کا بال بیکا نہ کر سکا۔یمن جیسا غریب ملک ہو یا نت نئے طبی آلات وعلاج رکھنے والی سپر پاور امریکا،کہیں بھی انسان نئے کورونا وائرس کے حملے سے نہ بچ سکا۔اور لگتا ہے کہ قدرت الہی کا قہروغصّہ ابھی کم نہیں ہوا۔وجہ یہ کہ انسانیت پہ حملہ آور نیا کورونا وائرس ارتقائی مراحل سے گذر کر ایسی نئی اقسام میں ڈھل رہا ہے جو زیادہ خطرناک ہیں۔

ابھی یہ پاکستان پر حملہ آور نہیں ہوئیں مگر انھوں نے برطانیہ،امریکا اور دیگر ممالک میں پھر کاروبارِ زندگی ٹھپ کرا دیا۔یہ نہ صرف بہ آسانی انسانی خلیوں سے چمٹ جاتی بلکہ انسان کے بدن میں پہنچ کر زیادہ تیزی سے اپنی نقول(یا بچے)پیدا کرتی ہیں۔جو انسان  وائرس کی ابتدائی قسم سے شفایاب ہو چکے،نئی اقسام انھیں دوبارہ بیمار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن ویکسینوں سے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں،نئی قسمیں مستقبل میں انھیں بے اثر بنا دیں۔غرض نئے وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے ابھی بنی نوع انسان کو کئی کٹھن مراحل درپیش ہیں۔اس وائرس کے جلد خاتمے کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

رب کائنات کی بنائی پُراسرار دنیا

آپ سوچتے ہوں گے کہ ایک وائرس اپنی نئی اقسام کیونکر پیدا کرتا ہے؟یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔یہ پُراسرار عمل سمجھنے کے لیے پہلے آپ اللہ تعالی کی تخلیق کردہ غیر مرئی دنیا کو جانیے اور سمجھیے جو کرہ ارض پہ انسانی دنیا کے شانہ بشانہ واقع ہے۔یہ نہ دکھائی دینے والی دنیا ہمارے ظاہر سے زیادہ طلسماتی اور عجائب وغرائب سے پُر ہے۔اس کے اکثر مکین انسانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔مگر کچھ باسی اللہ پاک نے اس لیے تخلیق فرمائے کہ وہ اشرف المخلوقات کو غضب ِالہی کی جھلکیاں دکھا کر اسے بھٹکنے سے روک سکیں۔

عارضی سزا دے کر اسے سیدھے راستے پہ لانے کی کوشش کریں۔کائنات میں ہر مردہ اور زندہ شے ایٹموں سے بنی ہے۔اللہ تعالی نے پھر اپنی حکمت کے تحت انہی ایٹموں کے مجموعے سے جاندار تخلیق فرمائے اور ان میں روح پھونک دی۔قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ انسان سمیت تمام جانداروں کو پانی اور مٹی سے گوندھ کر بنایا گیا۔چودہ سو سال بعد سائنس نے بھی دریافت کیا کہ کائنات میں بستا ہر چھوٹا بڑا جاندار پانی اور کاربن(مٹی)سے بنا ہے۔جدید تحقیق کی رو سے زندگی نے کیمیائی مادوں کے چار خاندانوں کے ملاپ سے جنم لیا:

(1)نیو کلک تیزاب(Nucleic acids):۔یہ تیزاب یا کیمیائی مادے کاربن،نائٹروجن اور فاسفورس سے بنتے ہیں۔یہی آر این اے(Ribonucleic acid )اور ڈی این اے(Deoxyribonucleic acid)سالمے بناتے ہیں۔یہ دونوں سالمات ہر زندہ شے کا ’’دماغ‘‘ہیں۔انہی سالموں میں جاندار کی نشوونما،کام کاج اور بچے پیدا کرنے کے سلسلے میں ہدایات اور احکامات موجود ہوتے ہیں۔آر این اے ایک دھاگے کی شکل رکھتا ہے۔ڈی این اے آپس میں ملے دو دھاگوں کی صورت میں ملتا ہے۔

(2)امائنو تیزاب(Imino acids): یہ تیزاب کاربن، ہایڈروجن و آکسیجن(یعنی پانی) اور نائٹروجن سے بنتے ہیں۔یہی تیزاب جانداروں میں پروٹین کے سالمے بناتے ہیں۔یہ سالمے ہر جاندار کا ’’جسم‘‘ہیں۔یہ اس کے عضلات اور گوشت بناتے ہیں۔

(3) شحمی تیزاب (Lipids):  انھیں چکنائی یا چربی کے تیزاب بھی کہتے ہیں۔یہ کاربن اور ہائڈروجن سے بنتے ہیں۔جاندار کے جسم میں مختلف چربیاں اور وٹامن تشکیل دیتے ہیں۔گویا یہ تیزاب انسان سمیت ہر جاندار کے بدن کے ’’محافظ‘‘ہوئے۔انسانی جسم میں چربی کی تہہ مختلف حفاظتی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔

(4)کاربوہائڈریٹس(Carbohydrates):۔اردو میں نشاستہ ۔یہ نامیاتی سالمے کاربن اور ہائڈروجن و آکسیجن(پانی)مل کر بناتے ہیں۔ مختلف اناج،پھلوں اور سبزیوں میں ملتے ہیں۔کاربوہائڈریٹس بیشتر جانداروں کو کام کاج کرنے کی خاطر توانائی فراہم کرتے ہیں۔گویا یہ انسان سمیت جانداروں کا ’’ایندھن‘‘ہیں۔

خلیے کے اسرار

ماہرین سائنس اب تک نہیں جان پائے کہ پہلے انڈا پیدا ہوا تھا یا مرغی۔اسی طرح وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ زندگی نے نیوکلک تیزابوں سے جنم لیا یا امائنو تیزابوں سے؟سائنس دانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ آر این اے سالمہ دنیا کی پہلی تخلیقی شے ہے یعنی تقریباً ساڑھے تین ارب سال پہلے اسی نے اپنی نقل تیار کی تھی۔تاہم قران پاک میں ارشاد الہی مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی نے نیوکلک اور امائنو،دونوں تیزابوں کی آویزش سے جنم لیا۔اور یہی درست ہے کیونکہ نیوکلک یا امائنو تیزاب انفرادی طور پہ زندگی نہیں تخلیق کر سکتے تھے۔

اس کے بعد تیزابوں کے درج بالا چاروں خاندانوں نے کروڑوں برس پہ محیط ارتقائی مراحل سے گذر کر رفتہ رفتہ زندگی کی باقاعدہ شکل…خلیے کو جنم دے ڈالا۔خلیہ زندگی کی سب سے چھوٹی مکمل صورت ہے۔ہر خلیہ تیزابوں کے چاروں خاندانوں کی مدد سے اپنا وجود برقرار رکھتا اور اپنی نئی نقول تیار کرتا ہے۔گویا وہ ازخود اپنے بچے پیدا کرنے پہ قادر ہے۔

آج دنیا میں ہر زندہ شے ایک یا زیادہ خلیے رکھتی ہے۔ان میں نباتات اور حیوانیات ،دونوں شامل ہیں۔خلیے مختلف اشکال اور سائز میں ملتے ہیں۔ان کا سائز 0.01 سے 0.10 مائکرمیٹر کے درمیان ہوتا ہے۔(ایک میٹر ایک ہزار ملی میٹر اور ایک ملی میٹر ایک ہزار مائکرومیٹر رکھتا ہے)یاد رہے انسانی آنکھ زیادہ سے زیادہ 0.05  مائکرومیٹر کی اشیا دیکھ سکتی ہے،وہ بھی صرف ایسے افراد کی جو تیز نظر رکھتے ہوں۔خلیے کا تفصیل سے جائزہ لینے کے لیے خردبین کی ضرورت ہے۔قدرت الہی کے اسرار ملاحظہ فرمائیے کہ انسانی جسم میں سب سے چھوٹانر نطفہ(sperm) ہے اور سب سے بڑا مادہ بیضہ(ovum)۔

ایک خلیے والے جاندار ’’یک خلوی‘‘(Unicellular organism) کہلاتے ہیں۔اس گروہ میں جراثیم، الجی، کائی (fungi)، پروٹوزا وغیرہ شامل ہیں۔ زیادہ خلیوں والے جانداروں کو ’’کثیر خلوی‘‘ ( Multicellular organism) کہا جاتا ہے۔ان میں انسان سے لے کر تمام حیوان اور کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔

’’مائکوزا‘‘ (Myxozoa) حیوانی دنیا کا سب سے چھوٹا سمندری جانور ہے۔اس کی مختلف اقسام سات سے بیس کے درمیان خلیے رکھتی ہیں۔اس کے مقابلے میں ایک انسان کم از کم تیس کھرب خلیوں کا مجموعہ ہے۔جبکہ بڑی وہیلیں کئی سو ارب خلیوں سے بنی ہیں۔ان خلیوں کی متفرق اقسام ہیں جو اپنا اپنا کام انجام دیتی ہیں۔مثلاً انسان میں دوسو سے زائد اقسام کے خلیے ملتے ہیں۔

جین اور غیرمرئی وجود

بتایا گیا کہ نیوکلک تیزاب سے بنے  آر این اے اور ڈی این اے سالمات  خلیے کا دماغ ہیں۔انھیں ’’جینیاتی مواد‘‘(Genetic material)بھی کہا جاتا ہے۔یہ خلیے کے مرکزے(نیوکلس)میں ملتے ہیں۔یہی دونوں خلیے کے دیگر حصوں تک ہدایات بھیج کر ان سے مطلوبہ اور ضروری کام کراتے ہیں۔ان سالمات کا سب سے چھوٹا حصہ ’’جین‘‘(Gene)کہلاتا ہے۔بیشتر جین پروٹینی مادے بنانے کی ہدایات دیتے ہیں۔ایک انسان میں بیس سے پچیس ہزار جین پائے گئے ہیں۔چھوٹے جانور چند سو جین رکھتے ہیں۔ہر انسان جین کی دو نقول رکھتا ہے:ایک کاپی اسے باپ اور دوسری ماں سے ملتی ہے۔99فیصد جین تمام انسانوں میں ایک جیسے ہیں۔1فیصد جین کچھ فرق رکھتے ہیں۔انہی فرق کی وجہ سے ہر انسان میں مخصوص جسمانی خصوصیات جنم لیتی ہیں مثلاً آنکھ کا نیلا ہونا،سفید یا کالی رنگت ،ناک پتلی یا موٹی ہونا وغیرہ۔

یک خلوی اور کثیر خلوی جانداروں کے علاوہ قدرت کی دو اور منفرد تخلیقات بھی کرہ ارض میں ملتی ہیں۔اول زندگی کی ایسی اشکال جو یک خلوی اور کثیر خلوی،دونوں کی خصوصیات رکھتے ہیں۔ان میں سلائم مولڈ(Slime mold)اور کچھ امیبا شامل ہیں۔دوم وائرس جوصرف آر این اے یا ڈی این اے پر مشتمل نیوکلک تیزاب اور امائنو تیزاب رکھتے ہیں۔اسی لیے انھیں یک خلوی نہیں کہا جاتا۔بعض ماہرین کے نزدیک وائرس زندگی اور موت کے درمیانی علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ وہ ازخود بچے یا نقول پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔چھوٹے بڑے وائرس اپنے آر این اے یا ڈی این اے کی لمبائی کے لحاظ سے دس بارہ تا دوسو جین رکھتے ہیں۔

’’مرض زا‘‘ کیا ہیں؟

خاص بات یہ کہ غیر مرئی دنیا کے باسیوں کی کئی اقسام دوسرے جانداروں میں بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔اس طرح وہ اپنی بقا کا بندوبست کرتی ہیں۔گویا بیماری پیدا کرنا ان کے لیے زندہ رہنے کا گر ہے۔یہ سبھی اقسام ایک گروہ میں شامل ہے جسے ’’مرض زا‘‘(Pathogen)کا نام دیا جا چکا۔اس گروہ میں وائرس،جراثیم،کائی،الجی،پروٹوزا اور دیگر یک خلوی جاندار شامل ہیں۔اس گروہ کے مشہور ارکان وائرس اور جراثیم ہیں۔جراثیم اور وائرس صرف طاقتور خردبینوں سے نظر آتے ہیں۔ ان کے مابین دو بنیادی فرق ہیں۔ اول یہ کہ ہر جرثومہ ایک مکمل یک خلوی جاندار ہے۔

وہ نہ صرف اپنے بل بوتے پر زندگی گذارتا بلکہ سازگار ماحول ملنے پہ بچے بھی پیدا کرتا ہے۔وائرس یک خلوی جاندار نہیں اگرچہ وہ جینیاتی مواد (ڈی این اے یا آر این اے  اور پروٹین) ضرور رکھتا ہے۔وائرس ہمیشہ کسی  خلیے میں داخل ہو کر نشوونما پاتا ہے۔وہ خلیے کے مواد کی مدد سے اپنے بچے پیدا کرتا ہے۔

دوسرا فرق یہ کہ جراثیم کی اقسام میں صرف ایک فیصد ہی انسانوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتی ہیں۔ بقیہ اقسام روزمرہ زندگی میں کسی نہ کسی طرح انسان کی مددگار ہیں۔ مثلاً ہمارا نظام ہاضمہ کئی اقسام کے انسان دوست جراثیم رکھتا ہے۔ یہی جراثیم اس نظام کو رواں دواں رکھ کر ہمیں بھی صحت مند رکھتے ہیں۔ جبکہ وائرسوں کی بیشتر اقسام انسان دشمن ہیں۔ وہ ہمیں مختلف امراض میں مبتلا کرتی ہیں۔ جو وائرس انسان پر حملہ نہیں کرتے‘ وہ بھی کسی طرح ہمارے مدد گار ثابت نہیں ہوتے۔وائرس اور جراثیم کی ہزارہا اقسام ہیں اور کل تعداد اربوں کھربوں تک پہنچ جاتی ہے۔

انسان زمانہ قدیم سے نت نئی بیماریوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ اسی مقابلے کے سبب انسان نے شعبہ طب کی بنیاد رکھی۔ موت کا خوف شعبہ طب کو ترقی دیتا رہا مگر انسان ڈیڑھ سو سال قبل ہی فطرت کے اس اسرار سے آگاہ ہوا کہ کئی بیماریاں غیر مرئی جاندار مثلاً وائرس اور جراثیم پیدا کرتے ہیں۔

چونکہ انسان انہیں نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی لیے انہیں کھوجنے میں ہزارہا برس لگ گئے۔1884ء میں فرانس کے ماہر خرد حیاتیات (مائیکروبیالوجسٹ) چارلس چیمبر لینڈ نے غیر مرئی جاندار (خرد نامیات) دیکھنے کے لیے ایک آلہ ’’چیمبر لینڈ فلٹر‘‘ ایجاد کیا ۔ آٹھ سال بعد روس کے نباتات داں‘ دیمتری ایوانفسکی نے اسی فلٹر کی مدد سے دنیا کا پہلا دریافت ہونے والا وائرس’’ ٹوبیکو موزیک‘‘ (Tobacco mosaic)دریافت کر لیا۔ یہ وائرس تمباکو کے پودوںکو نشانہ بناتا ہے۔

جراثیم سے ہمیں چمٹنے والی بیماریوں میں تپ دق‘ نمونیا‘ غذائی سمیّت (Foodborne illness) تشنج‘ ٹائیفائڈ‘ جذام اور خناق نمایاں ہیں۔ وائرسوں سے جنم لینے والے امراض میں چیچک ‘ فلویا انفلوئزہ‘ کن پیڑے‘ خسرہ‘ لاکڑا کاکڑا ‘ ایڈز ‘ ایبولا‘ خسرہ کاذب(Rubella) مرض کلب (Rabies) ‘  کوویڈ 19 وغیرہ شامل ہیں۔جو امراض جراثیم سے جنم لیں‘ ان کا ’’اینٹی بائیوٹک‘‘ (Antibiotics) ادویہ سے علاج ہوتا ہے۔ وائرسوں کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج جن ادویہ سے کیا جا ئے‘ وہ ’’اینٹی وائرل‘‘ (Antivirals )کہلاتی ہیں۔

دونوں اقسام کی یہ ادویہ مختلف طریقوں سے بنتی اور جسم میں پہنچ کر مختلف انداز میں بیماری پیدا کرنے والے جرثومے یا وائرس پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ ادویہ سے علاج کرنے کے علاوہ ویکسین کی مدد سے بھی انسانوں کو جراثیم ‘ وائرسوں وغیرہ کے حملوں سے محفوظ و مامون بنایا جاتا ہے۔

غیر مرئی جانداروں کے علاوہ بعض چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی انسانوں میں متفرق بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے کیڑے ’’طفیلی‘‘(Parasite) کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلازمو ڈیوم (Plasmodium)نامی کیڑے انسانوں میں ملیریا جیسا موذی مرض پھیلاتے ہیں۔ چیچڑیاں‘ مکھیاں‘ جوئیں‘ کٹھمل‘ پسو وغیرہ بھی انسان کو کسی نہ کسی طبی مسئلے میں گرفتار کرا سکتے ہیں۔ طفیلی کیڑوں کے سبب جنم لینے والے امراض کا علاج انہی سے مخصوص ادویہ کے ذریعے ہوتا ہے۔یہ  واضح رہے کہ وائرسوں‘ جراثیم‘ کائی‘ پروٹوزا اور طفیلیوں وغیرہ سے جو بیماری انسانوں یا جانوروں کو لگے‘ اسے اصطلاح میں ’’چھوت‘‘(انفیکشن) کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ہر سال یہ چھوتی بیماریاں کم از کم ایک کروڑ انسانوں کی جانیں لیتی ہیں۔

وائرسوں کی دنیا

وائرس میں امائنو یا پروٹینی مواد سے بنے غلاف میں جینیاتی مواد محفوظ ہوتا ہے جسے ’’کیپسیڈ‘‘(Capsid)کہتے ہیں۔بڑے وائرسوں میں شحمی تیزاب سے بنا ایک اور بیرونی غلاف ملتا ہے جسے ’’لفافہ‘‘( Envelope)کہا جاتا ہے۔اس غلاف پر پروٹینی تیزاب سے بنے ابھار ’’اسپائک پروٹین‘‘(Spike protein)موجود ہوتے ہیں۔

یہ ابھار وائرس کو مطلوبہ خلیے سے چمٹنے میں مدد دیتے ہیں۔انہی ابھاروں کے راستے وائرس اپنا جینیاتی مواد خلیے کے اندر داخل کرتا ہے۔یہ کام ہو جائے تو وائرس خلیے کی مشینری کے ذریعے اپنی نقول بناتا ہے۔جب وائرس کی نقول تیار ہو جائیں تو وہ خلیے کی جھلی پھاڑ کر باہر نکل آتی ہیں۔اس عمل سے خلیہ مر جاتا ہے۔نقول پھر دیگر خلیوںکو نشانہ بنا کر اپنی نقلیں بناتی ہیں۔اس طرح نئی نقول بننے اور خلیوںکی موت کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔اسی سلسلے سے بیماری جنم لیتی ہے۔اگر وہ ختم نہ تو بیشتر خلیے مر جانے کے باعث جاندار بھی چل بستا ہے۔خلیوں کی موت یا ان کی خرابی ہی کینسر جیسا موذی مرض پیدا کرتی ہے۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ وائرس انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ماہرین کا کہنا ہے،اگر چالیس کروڑ وائرس ایک جگہ جمع کیے جائیں تو وہ پن کے سر میں سما جائیں۔وائرس کی اقسام مختلف صورت شکل رکھتی ہیں۔جب کوئی وائرس کسی خلیے سے نہ چمٹا ہو تو وہ ’’وائرون‘‘(Virion)کہلاتا ہے۔اس حالت میں وائرس کی مختلف اقسام مختلف عرصے تک زندہ رہتی ہیں۔کچھ قسمیں چند گھنٹوں میں مر جاتی ہیں۔بعض وائرون مناسب ماحول ملنے پر کئی دن اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔وائرس منہ ،کان،آنکھ،اعضائے مخصوصہ اور کسی زخم کے راستے جاندار کے بدن میں داخل ہوتے ہیں۔

نیا کورونا وائرس کیسے پیدا ہوا؟

کورونا وائرس وائرسوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں صرف آر این اے ملتا ہے۔یہ اپنے گروہ میں سب سے بڑے وائرس ہیں۔ان کی تقریباً 50اقسام(Species)ہیں۔یہ سبھی پرندوںاور ممالیہ جانوروں کے نظام تنفس پہ حملہ کرکے بیمار کرتے ہیں۔سات اقسام جانوروں سے ہوتے انسانوں کو بھی نشانہ بنا چکیں۔ان میں سے تین قسمیں زیادہ خطرناک ہیں:اول مرس کوو (MERS-CoV)، دوم سارس کوو (SARS-CoV)اور سوم سارس کوو 2 (SARS-CoV-2)۔آخرالذکر وائرس ہی نے حالیہ وبا پھیلا رکھی ہے جسے اصطلاح میں کوویڈ 19( COVID-19)کہا گیا۔یہ تینوں وائرس انسانوں میں بخار،خشک کھانسی اور خراب گلے کی حالت پیدا کرتے اور اسے موت کے منہ تک پہنچاتے ہیں۔

ایک سال کی تحقیق کے بعد حال ہی میں ماہرین نے پتا چلایا ہے کہ سارس کوو 2 نے کیسے جنم لیا؟ہوا یہ کہ گھڑ نعلی چمگادڑ کی ایک قسم’’وسطی گھڑ نعلی چمگادڑ‘‘ (Intermediate horseshoe bat) کے جسم میں دو قسم کے وائرس داخل ہو گئے۔ایک تو سارس کوو تھا۔دوسرے وائرس کی شناخت ابھی نہیں ہو سکی۔بہرحال یہ دونوں وائرس وسطی گھڑ نعلی چمگادڑ کے خلیوں میں داخل ہو کر اپنی نقول بنانے لگے۔ اس دوران یہ حادثہ پیش آیا کہ نامعلوم وائرس کی نقل کا کچھ جینیاتی مواد سارس کوو کی نقل کے جینیاتی مواد میں شامل ہو گیا۔

یوں دو وائرسوں کے جینیاتی مواد ملنے سے سارس کوو کی نئی قسم،سارس کوو 2 وائرس وجود میں آئی۔نامعلوم وائرس کے جینیاتی مواد نے سارس کوو 2 کے جینیاتی مواد میں بنیادی تبدیلی یہ پیدا کی کہ اس کے اسپائک پروٹین کو بہت زیادہ موثر بنا دیا۔اس تبدیلی کے باعث اسپائک پروٹین انسان کے نظام تنفس میں پائے جانے والے خلیوں سے بہ آسانی چمٹنے لگے۔وہ اس طرح کہ حادثاتی جینیاتی تبدیلی نے انسان کے جسم میں سرگرم ایک خامرے یا انزائم’فیورین(Furin)کو سارس کوو2 کا غلام بنا دیا۔

ہمارے بدن میں فیورین کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے خولوں میں بند مختلف ہارمونوں کے خول چیر ڈالے۔اس طرح وہ ہارمون آزاد ہو کر انسان کی نشوونما میں حصہ لیتے ہیں۔مگر یہ خامرہ کسی جرثومے یا وائرس وغیرہ کے خول نہیں توڑتا۔لیکن سارس کوو2 میں جینیاتی تبدیلی کی سبب فیورین اسے بھی کوئی ہارمون سمجھنے لگا۔چناں چہ وہ اس نئے کورونا وائرس کے اسپائک پروٹین بھی چیرنے لگا جو ملفوف ہوتے ہیں۔یوں اسپائک پروٹینوں کو یہ سنہرا موقع مل گیا کہ وہ نیوروفیلین1 (Neuropilin 1)سے چمٹ جائیں۔انسان کے نظام تنفس میں پائے جانے والے خلیوں کی بیرونی سطح پر ایک سالمہ،نیوروفیلین1 ملتا ہے۔اس سالمے کا کام یہ ہے کہ وہ غذا کو خلیے کے اندر لے جائے۔خلیے کے  مختلف حصے پھر غذا توڑ کر اس سے توانائی پاتے ہیں۔

لیکن جینیاتی تبدیلی کے سبب سارس کوو2 کے اسپائک پروٹین کو موقع ملا کہ وہ نیوروفیلین 1سے چمٹ کر اس کی وساطت سے وائرس کا جینیاتی مواد خلیے کے اندر پہنچا دیں۔گویا نئے کورونا وائرس کو ایک پُراسرار جینیاتی تبدیلی کے ذریعے انسانی نظام تنفس کے خلیوں میں داخل ہونے کا دروازہ مل گیا۔انسانوں کو نشانہ بنانے والی کورونا وائرسوں کی دیگر اقسام کے اسپائک پروٹین انسانی نظام تنفس کے خلیوں سے بہ آسانی نہیں چمٹتے۔فیورین ان کو نہیں چیرتا اور اسپائک پروٹین بدستور ملفوف رہتے ہیں۔البتہ جن انسانوں میں فیوورین خامرے میں کوئی خرابی ہو تو وہ کسی کورنا وائرس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔تاہم ایک حادثاتی جینیاتی تبدیلی نے سارس کو2 کے اسپائک پروٹین کو اس قابل بنا ڈالا کہ وہ آسانی سے انسانی خلیوں میں داخل ہو جائیں۔

ایک وائرس خلیے کے سالمات،خامروں اور پروٹیوں کی مدد سے اپنی نقول بناتا ہے۔اسی لیے قدرتاً خلیے کا جینیاتی مواد ان نقول کے جینیاتی مواد کا حصّہ بن کر ان میں کوئی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔یہ تبدیلی سائنسی اصطلاح میں ’’تغیر‘‘(Mutation)کہلاتی ہے۔

بیرونی عوامل مثلاً ایکس ریز،الٹرا وائلٹ شعاعیں وغیرہ بھی وائرس کا جینیاتی مواد تبدیل کر سکتے ہیں۔تغیر کسی جین کے حصے میں جنم لیتا ہے۔عام طور پر تغیر معمولی ہوتا ہے اور وائرس کے کام پہ اثرانداز نہیں ہوپاتا۔بعض تغیرات خلیوں سے چمٹنے،داخل ہونے اور نقول بنانے میں وائرس کا کام آسان بناتے ہیں۔گویا ان کے ذریعے وائرس اپنی بقا کا بندوبست کرتا ہے۔لیکن کچھ سے وائرس کا کام اتنا متاثر ہوتا ہے کہ وہ مر جاتا ہے۔غرض تغیراچھے یا برے،دونوں قسم کے ہوتے ہیں۔دنیائے وائرس میں دو یا زیادہ وائرسوں کے جینیاتی مواد کا ادغام بھی ہوتا ہے کہ اسی عمل سے سارس کوو2 نے جنم لیا تاہم یہ شاذونادر سامنے آتا ہے۔

کورونا نے بھارت میں جنم لیا؟

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کسی لیبارٹری میں سارس کوو کے جینیاتی مواد میں بذریعہ جینیٹک انجیئرئنگ تغیر لا کر سارس کوو2کو جنم دیا گیا۔اس ضمن میں چین ،امریکا،کینیڈا اور اسرائیل کی لیبارٹریوں میں کام کرتے جینیاتی انجیئنروں کی طرف انگلی اٹھائی جاتی ہے۔اس نظریے کی رو سے نیا کورونا وائرس انسان ساختہ ہے۔اور یہ کہ سارس کوو2 کے اسپائک پروٹین میں تبدیلی لا کر اسے انسانیت کے لیے تباہ کن ہتھیار بنا دیا گیا۔

امریکی اور یورپی میڈیا کا مسلسل دعوی ہے کہ سارس کوو2 نے چین میں جنم لیا۔مگر دسمبر 2020ء میں تین چینی سائنس دانوں کی تحیقق نے نیا در کھول دیا۔ تین سائنس داں یہ ہیں: لایبنگ شین(انسٹی ٹیوٹ آف نیوروسائنس،سینٹر فار ایکسیلینس،چائنیز اکیڈمی آف سائنسز،شنگھائی،چین ،فونان ہی(اسکول آف لائف سائنسز،فودان یونیورسٹی ،شنگھائی،) اور زیاؤ زینگ(ڈیپارٹمنٹ آف بائیو کیمسٹری اینڈ مالیکولر بائیولوجی،دی یونیورسٹی آف ٹیکساس ہیلتھ سائنس سینٹر،ہوسٹن،امریکا) انھوں نے اپنی تحیقق کو ’’The early cryptic transmission and evolution of SARS-CoV-2 in human hosts‘‘ کا نام دیا۔

سارس کوو2 میں نومبر2020ء تک مختلف ممالک میں جتنے بھی تغیرانجام پائے تھے،ان کا ڈیٹا اقوام متحدہ کے ادارے،ڈبلیو ایچ او،امریکی محکمہ صحت اور دیگر یورپی و چینی داروں کے پاس محفوظ تھا۔تینوں چینی سائنس دانوں نے پہلے اداروں سے سارس کوو2 کے تمام تغیرات کا ڈیٹا حاصل کیا۔پھر یہ دیکھا کہ کس سارس کوو2 وائرس میں سب سے کم تغیر موجود ہیں۔

ظاہر ہے،وائرس کا یہ نمونہ اولیّں نمونوں میں سے ایک ہوتا۔یہ طریق کار ’’ارتقائی شجر‘‘(Phylogenetic tree)کہلاتا ہے۔اس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ ایک وائرس نے سب سے پہلے کس مقام پر جنم لیا۔تحقیق سے چینی سائنس دانوں پر منکشف ہوا کہ سارس کوو2 کے جو نمونے بھارت اور بنگلہ دیش سے حاصل کیے گئے،ان میں سب سے کم تغیرات موجود تھے۔یوں القا ہوا کہ سارس کوو2 نے بھارت میں جنم لیا۔اور یہی وجہ ہے کہ اس وائرس کی پھیلائی وبا بھارت میں وسیع پیمانے پر پھیل گئی۔

یاد رہے،وسطی گھڑ نعلی چمگادڑ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی پائی جاتی ہے۔بھارت میں اس چمگادڑ کا گوشت آیوویدک ادویہ کی تیاری میں استعمال ہوتاہے۔لہذا چینی سائنس دانوں کے مطابق یہ قوی امکان ہے کہ سارس کوو2 سب سے پہلے بھارت میں سامنے آیاجہاں صحت وصفائی کی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہے۔یوں وائرس متاثرہ انسان سے صحت مند انسانوں میں منتقل ہوتا گیا اور پھر دنیا بھر میں پھیل گیا۔ایک تازہ رپورٹ کی رو سے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی آدھی آبادی کوویڈ 19 میں مبتلا ہو چکی۔

تغیرات اور منحرفات کا قصّہ

سارس کوو2 میں پہلا تغیر D614Gتھا جو مئی 2020ء میں یورپ میں سامنے آیا۔پھر اسپین میں دوسرا اہم تغیر20E (EU1)رونما ہوا۔ماہرین کے نزدیک حال میں عیاں ہونے والے N501Y اور E484Kخطرناک ترین تغیر ہیں۔انھوں نے  اسپائک پروٹین کے ایک اہم علاقے’’receptor binding domain‘‘میں جینیاتی تبدیلی پیدا کر دی۔یہی وہ علاقہ ہے جہاں وائرس کے پروٹینی مادے انسانی خلیوں کی سطح پہ موجود پروٹینی مادوں سے جڑتے ہیں جنھیں ACE2 کہا جاتا ہے۔اسی جڑاؤ سے وائرس خلیے کے ساتھ چپکتا ہے۔دونوں تغیرات کی بدولت اسپائک پروٹین زیادہ آسانی سے ACE2 کے ساتھ جڑنے لگا۔

جب ایک اصل یا ابتدائی وائرس کی کسی نقل کے جینیاتی مواد میں بہت زیادہ تغیرات پیدا ہو جائیں تو وہ قدرتا مختلف ہو جاتی ہے۔یہ نقل پھر سائنسی اصطلاح میں ’’منحرف‘(Variant)کہلاتی ہے۔فی الوقت سارس کوو2 کے تین اہم منحرف…P.1 (برازیل )،B.1.351(جنوبی افریقا) اور B.1.1.7  (برطانیہ)سامنے آ چکے۔

ان تینوں میں درج بالا چاروں تغیرات شامل ہیں۔ان منحرفات کو روکنے کے لیے ہی برطانیہ اور دیگر ممالک میں مختلف جہگوں پر دوبارہ لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔خاص بات یہ ہے کہ سارس کوو2 تغیرات سے گذرتا رہا تو یہ عین ممکن ہے کہ اس کی نئی اقسام یا منحرفات انسان کے مامون نظام(Immune system) کے خلیوںکو بے اثر بنا دیں۔سارس کوو2 کی حالیہ سبھی ویکسینیں انہی مامونی خلیوں کو متحرک کر کے وائرس کے خلاف صف آرا کرتی ہیں۔لیکن مسقتبل میں الگ تھلگ جینیاتی مواد رکھنے والے منحرف وجود میں آئے تو یہ ویکسینیں کام نہیں دیں گی۔ ممکن ہے،یہ ننھا وائرس زیادہ خطرناک روپ دھار کر آنے والے برسوں میں بھی انسانی دنیا میں ہلچل مچائے رکھے۔لہذا بے پروائی نہ برتیے اور کوویڈ 19سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنائے رکھیے،اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔

The post کورونا وائرس زیادہ خطرناک ہو رہا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » صحت

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں