ٹوکیو اولمپکس خیر سے اختتام پذیر ہوئے۔ دنیا بھر سے ہزاروں کھلاڑی کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے میں شریک ہوئے۔ سیکڑوں ایتھلیٹ اپنے سینوں پر تمغے سجائے فاتحانہ انداز میں اپنے وطن واپس لوٹے تو بہت سے خالی ہاتھ ہی رہے۔
پاکستانی ایتھلیٹس کا ایک دستہ بھی ان مقابلوں میں شریک ہوا اور اپنے پیش رو کھلاڑیوں کی روایات کو بڑھاتے ہونے خالی ہاتھ ہی وطن واپس لوٹے۔ اور کیوں نہ لوٹتے، ہمارے ایتھلیٹس کی ایک دو نہیں پورے انتیس سالوں کی روایت یہی ہے۔
اولمپک مقابلوں میں شریک ہونے اور خالی ہاتھ لوٹنے کی۔ پھر بھی دو ایتھلیٹس نے بغاوت کرتے ہوئے میڈل جیتنے کی کوشش کی مگر قسمت کے آگے ان کی ایک نہ چلی ان کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ یہ دو ایتھلیٹس بھی میڈل نہ جیت سکے اگر جیت جاتے تو باقی کھلاڑی اور اولمپکس کمیٹی والے ان کے خلاف بغاوت کا پرچا کٹوا دیتے اور پھر ان کھلاڑیوں کی باقی زندگی عدالتوں کے چکر کاٹتے اور صفائی دیتے ہوئے گزرتی کہ انہوں نے دیارغیر میں ملک کا نام روشن کرنے کی جسارت کیسے کی۔
بہرحال جو ہونا تھا سو ہوا۔ وطن عزیز کے ہر شعبے کی طرح کھیلوں کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے، اس لیے عوام بھی تھوڑی دیر رو پیٹ کر اپنے معمولات زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمارے کھلاڑی میدان میں کھیلیں نہ کھیلیں عوام کے جذبات سے ضرور کھیلتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی پر عوام کی اکثریت کا یہی کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کا انتخاب میرٹ پر نہیں کیا گیا۔ اس نکتے پر ہم نے بھی غور کیا تو کھلاڑیوں کے انتخاب کے سلسلے میں میرٹ کی دھجیاں پاکستان سے جاپان تک اڑتی دکھائی دیں۔
ذرا سوچ بچار کیا تو اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، جن ایتھلیٹس کو اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے بھیجا گیا ان سے بہتر کھلاڑی ملک کے کونے کونے میں موجود تھے مگر قومی اولمپک کمیٹی کے ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اگر وہ سب کھلاڑی ارباب اختیار کی نظروں میں ہوتے تو ہماری قوم بھی اولمپک میڈل جیتنے کی خوشیاں منا رہی ہوتی۔
ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم نشان دہی کریں کہ ارباب اختیار سے ایتھلیٹس کے انتخاب میں کہاں غلطی ہوئی، کس کی جگہ کسے بھیجا جاسکتا تھا۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں بیڈمنٹن کی۔ بیڈمنٹن میں ہماری قومی چیمپئن کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ بیڈمنٹن کے کھیل میں وہی کھلاڑی کام یاب رہتا ہے جو شٹل کاک کو واپس مخالف کی طرف اچھالتا رہے اور اپنے پاس گرنے نہ دے۔
اس کام میں ماہر تو ہمارے تمام سرکاری محکموں کے افسران ہیں۔ ان کے پاس شامت کی ماری جو فائل پہنچتی ہے یہ حضرات اسے عمدگی اور تیزرفتاری سے دوسرے افسر یا سائل کی طرف شٹل کاک کی طرح اچھال دیتے ہیں۔ مجال ہے جو فائل اپنے پاس گرنے دیں سائل بچارا اپنی فائل سمبھالنے کے چکر میں بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوجاتا ہے اور تھک ہار کر گر پڑتا ہے مگر سرکاری اہل کار فائل اچھال اچھال کر نہیں تھکتے۔ بیڈمنٹن کا شان دار مظاہرہ ہمارے تمام سرکاری دفاتر میں دیکھنے کو ملتا ہے چناںچہ ہمارے خیال میں اگر کسی سرکاری افسر کو بیڈمنٹن کے مقابلے میں شرکت کے لیے بھیجا جاتا تو میڈل یقینی تھا۔
شوٹنگ میں حصہ لینے والے ایتھلیٹ بھی ناکام ہوئے۔ اس کی وجہ بھی میرٹ کی خلاف ورزی ہے وطن عزیز میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر نشانہ باز موجود ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں خاص طور پر کراچی کے ٹیلنٹ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ماہر نشانہ باز موجود ہیں جن کی صلاحیتوں کے مظاہرے ہم سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ چلتی موٹر سائیکلوں سے چلتی گاڑیوں میں نشانہ لگاتے ہیں مجال ہے جو کوئی نشانہ خطا ہو۔ یہ سب خداداد صلاحیت کے حامل ہیں۔
نشانہ بازی کی مشق کے لیے نہ تو انہیں سرکاری اسلحہ میسر ہوا نہ شوٹنگ رینج، بس بچپن سے گلیوں میں کنچے کھیلتے ہوئے بڑے ہونے اور شوٹنگ میں ماہر ہوگئے۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے رابطہ کر کے التجا کی جاتی کہ بھائی کچھ دن کے لیے ہمیں اپنا ماہر نشانہ باز ادھار دے دو میڈل جیت کے لائے گا تو واپس کردیں گے۔ اگر جماعت والے تعاون نہ کرتے تو سرکاری مہمان خانے میں مقیم کسی ماہر نشانے باز کی خدمات حاصل کر لی جاتیں، اس وعدے پر کہ میڈل جیت کر لاؤ گے تو یہاں سے خلاصی ہوگی۔ اگر ان میں سے کوئی ماہر نشانہ باز بھیجا جاتا تو وہ لازمی گولڈ میڈل جیت کر لاتا۔
اسی طرح ریس میں حصہ لینے والی ہماری ایتھلیٹ بھی بھاگ نہ سکیں۔ یہاں بھی اگر درست انتخاب کیا جاتا تو کام یابی حاصل کی جاسکتی تھی۔ بھاگنے کے معاملے میں تیزی دکھانے میں بھی ہمارے سرکاری ملازمین بازی لیے ہوئے ہیں۔ کرنے کام سے تو بھاگتے ہی ہیں ساتھ اپنے دفاتر سے بھی اتنی تیزی سے بھاگتے ہیں کہ پکڑ میں نہیں آتے۔ وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا گہ تین بچے اپنے اپنے والد کی بڑائی بیان کر رہے تھے۔
پہلا بچہ بولا میرے ابو اتنا تیز دوڑتے ہیں کہ چلتی بس کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، دوسرا بچہ بولا میرے ابو اتنی تیز دوڑتے ہیں کہ چلتی ٹرین کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، تیسرے بچے نے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں میرے ابو اتنی تیز دوڑتے ہیں کہ پانچ بجے ان کے دفتر کی چھٹی ہوتی ہے اور وہ تین بجے گھر پر ہوتے ہیں۔ دونوں بچوں نے حیرت سے پوچھا تمہارے ابو کیا کرتے ہیں بچے نے جواب دیا میرے ابو سرکاری ملازم ہیں۔ تو جناب! جن لوگوں کے بھاگنے کی رفتار اتنی تیز ہو ان کے لیے یہ سو دو سو میٹر کی ریس جیتنا کیا مشکل ہے۔ اس لیے ہمارے خیال میں اگر دوڑ کے مقابلے کے لیے بھی کسی سرکاری ملازم کا انتخاب کیا جاتا تو وہ ضرور بھاگنے میں سب کو پیچھے چھوڑ کر میڈل جیت کر لاتا۔
ویسے ایمان داری کی بات ہے کہ بھاگنے میں تو ہماری پوری قوم ہی ماہر ہے۔ ہم سب اپنے فرائض ادا کرنے سے تیزی سے بھاگتے ہیں۔ ہمارے طلبا پڑھائی سے دور بھاگتے ہیں اور اساتذہ پڑھانے سے۔ لوگ قانون پر عمل کرنے سے بھاگتے ہیں۔ انصاف غریب سے دور بھاگتا
انصاف غریب سے دور بھاگتا ہے، منصف انصاف سے
دور بھاگتا ہے، دولت مند مزید دولت کی طرف بھاگتا ہے تو غربت غریب کی طرف بھاگتی ہے، ملازم کام کرنے سے بھاگتے ہیں اور مالکان تنخواہ دینے سے۔ اور کوئی ملک کی دولت لوٹ کر ملک سے ہی بھاگ جاتا ہے۔ جس ملک کے عوام اور خواص بھاگنے میں اتنے تیز ہوں وہاں ریس کے مقابلے میں سب سے پیچھے رہ جانا انتہائی افسوس کا مقام ہے۔
غالباً مار کٹائی کے کسی کھیل میں بھی ہمارے ایک ایتھلیٹ نے حصہ لیا تھا مگر وہ بھی حریف کو زیر کرنے میں ناکام ہوئے۔
جہاں تک مار پیٹ کا تعلق ہے تو اس کام میں تو ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان ماہر ہیں۔ جہاں کسی سے معمولی بات پر بھی تلخ کلامی ہوئی ایک دوسرے کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ذرا سی مار پیٹ میں ریسلنگ باکسنگ کراٹے سب کے داؤ پیچ آزما لیتے ہیں۔
چناںچہ ہماری رائے میں مارپیٹ کے کھیلوں میں شرکت کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں سے انتخاب کرنا چاہیے تھا۔ یہ تو بلاوجہ ہی مار پیٹ کے لیے میدان میں اتر جاتے ہیں اولمپکس میں تو پھر سامنے میڈلز کا معاملہ تھا، یہ جان پر کھیل کر بھی میڈل جیت کر لاتے۔
آخر میں بات کرتے ہیں تیراکی کے مقابلے کی۔ اس میں بھی ہماری کھلاڑی کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ تیراکی کی بھی ہمارے سرکاری ملازمین ہی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے تمام سرکاری ادارے اور محکمے کرپشن کے وسیع و عریض تالاب بن چکے ہیں، جیسے کہ ریلوے، تعلیم، صحت، پولیس کے محکمے جن میں ان کے ملازمین غوطہ زن ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کے مقابلے میں تیزی سے ہاتھ پاؤں
چلا کر دوسروں سے آگے نکلنے کے چکر میں رہتا ہے۔ ان ماہر تیراکوں نے کرپشن کے تالابوں میں تیر کر اتنے بڑے بڑے ریکارڈ بنائے ہیں کہ جو سنتا ہے وہ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے۔ ان میں سے اگر کسی کو تیراکی کے مقابلے میں بھیجا جاتا تو وہ سب کو پیچھے چھوڑ کر گولڈ میڈل تک پہنچ جاتا۔ جس ملک میں اتنے ماہر تیراک موجود وہاں تیراکی میں میڈل نہ جیتنا ہم سب کے لیے چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیولین تھرو کا میڈل تو پکا ہمارا ہی تھا، لیکن وہ ہم نے خالصتاً انسانی ہم دردی کی بنیاد پر چھوڑ دیا، کیوںکہ اس میڈل کے لیے ہمارے ساتھ بھارتی کھلاڑی بھی مقابلے میں شامل تھا۔ اب اگر ہمارا ایتھلیٹ اپنے عمدہ کارکردگی سے یہ میڈل جیتنے میں کام یاب ہو جاتا تو بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم اور شدت سے ہونے لگتے، اس لیے یہ میڈل نہ جیتنے میں ہی عافیت تھی۔
خیر اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا، جنہوں نے میڈل جیتے وہ کھلاڑی اور ان ممالک کے عوام خوشیاں منا رہے ہیں اور ہمارے ہاں حسب روایت ذمے داران ناقص کارکردگی پر ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ بھی اس قوم کا المیہ ہے کہ ایک کھلاڑی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ کھیلوں سے ہی کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کھیلوں کی وزارت ایک ایسی خاتون کے حوالے کردی گئی ہے۔
جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی لوڈو تک نہیں کھیلا ہو گا، اور ان پر یہ بھاگ دوڑ والے کھیلوں کی ذمے داری ڈال دی گئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہر گھر میں بچوں کی کھیل کود کی سرگرمیوں کی سب سے زیادہ مخالف امی ہی ہوتی ہیں ادھر بچوں نے کھیل کود کے لیے ہاتھ پاؤں چلانے شروع کیے ادھر امی کی آواز آ جاتی ہے ’’کیا مصیبت ہے آرام سے بیٹھو۔‘‘ اور پھر بچوں کے سارے ارمان وہیں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ تو جناب ایک امی نما کھیلوں کی وزیر کی موجودگی میں ملک میں کھیلوں کی سرگرمیاں کیا خاک فروغ پائیں گی۔
The post اگر اولمپکس میں انھیں بھیجا جاتا۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » کھیل