کورونا میں سوشل میڈیا نے ہماری ذہنی صحت کو کیسے متاثر کیا؟

دنیا بھر سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں، کوویڈ 19 کی عالمی وباء شروع ہونے کے بعد ذہنی صحت کمزور ہوئی ہے۔

ایک خیال یہ ہے کہ یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے سبب ہوا ہے۔ کیا واقعی؟ کیا ساری ذمہ داری سوشل میڈیا پر عائد کی جاسکتی ہے یا وہ جزوی طور پر قصور وار ہے۔

پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ معلومات اکٹھی کرتے ہیں ، خیالات شئیر کرتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کو مربوط کرتا ہے جو ایک جیسے مسائل کا سامنا کر تے ہیں۔ کوئی مسئلہ عالمی ہو یا قومی ، اس سے متعلقہ معلومات سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلتی ہیں۔ جب کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنے نرغے میں لیا، تب یہی سوشل میڈیا تھا جو لمحہ بہ لمحہ پوری دنیا میں لوگوں کو معلومات فراہم کر رہا تھا۔

حکومتیں اور صحت کے ادارے بھی اسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کورونا سے محفوظ رہنے اور اس کے علاج سے متعلقہ تازہ ترین تحقیقات حاصل کرنے اور آگے پھیلانے میں سہولت محسوس کرتے رہے۔

کورونا کے دنوں میں سوشل میڈیا صرف ذاتی باتیں اور تصاویر شئیر کرنے والا پلیٹ فارم ہی نہ رہا بلکہ صحت بالخصوص کورونا سے متعلقہ معلومات کا مرکز بن چکا تھا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کورونا وبا کے دوران میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کا منفی استعمال بھی ہوا ہے جس کے وجہ سے لوگ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے۔

’’میڈیکل نیوز ٹوڈے ‘‘ نے ایک رپورٹ میں اس سوال کا جواب تفصیل سے دیا ہے کہ سوشل میڈیا نے کیسے لوگوں کی نفسیاتی صحت کو متاثر کیا۔ رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت (WHO) کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں 20 فیصد بچے اور جوان مختلف ذہنی مسائل کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

19سے25 سال کی عمر تک کے مرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے خودکشی کی۔ امریکی ادارے ’ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن ‘ (سی ڈی سی) نے بالغ افراد کا ایک جائزہ لیا ، جس کے مطابق31 فیصد نوجوانوں میں اضطراب یا افسردگی کی علامات پائی گئیں۔ 13 فیصد شراب پی رہے تھے یا یا پھر منشیات استعمال کر رہے تھے۔ 26 فیصد نوجوانوں میں ذہنی تناؤ کی علامات پائی گئیں۔11 فیصد خودکشی کے بارے میں سوچتے پائے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا نے مختلف لوگوں کی نفسیاتی صحت پر مختلف انداز میں اثرات مرتب کیے۔ بعض اکثریتی اور اقلیتی نسلی گروہ عالمی وباء سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر بالغ ہسپانوی افراد نے عالمی وباء کے آغاز میں خوراک کی قلت اور غیر محفوظ رہائش کے حوالے سے غیرمعمولی نفسیاتی دباؤ کا سامنا کیا ۔’ فرنٹیئرز ان سائیکالوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا کہ عوام میں عالمی وباء کے خطرات اور اس کے بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش کے درمیان ایک تعلق موجود ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر پھیلنے والی بیماری کے دوران میں اپنی ذاتی حفاظت اور صحت کے بارے میںکسی قدر تشویش کی بنیاد پر ایک صحت مند رویہ جنم لیتا ہے اور فروغ پاتا ہے۔ مثلاً کورونا کی وبا کے دوران تشویش نے ہاتھ دھونے اور سماجی فاصلہ قائم کرنے جیسے کلچر کو فروغ دیا مگر اس حوالے سے پیدا ہونے والی تشویش نے بعض لوگوں میں اضطراب کو خطرناک حد تک زیادہ کردیا ۔ ضرورت سے زیادہ تشویش پیدا ہونے سے ضرورت سے زیادہ اضطراب پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں انسانی نفسیات کو درپیش مسائل میں اضافہ ہوا۔

مختلف اندازوں کے مطابق 1995ء کے بعد سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہوا، بنیادی طور پر لوگوں نے اسے خبریں حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ۔ امریکی ادارے ’ پیو ریسرچ سینٹر‘ کے ایک سروے کے مطابق 31 اگست سے سات ستمبر 2020 کے درمیان میں امریکہ میں53 فیصد نوجوان سوشل میڈیا سے خبریں حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا عوامی صحت کو لاحق بحران کے دوران میں پوری دنیا میں صحت کی معلومات موثر طریقے سے پہنچانے میں مدد کر سکتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ ان پلیٹ فارمز پر دی گئی معلومات بعض اوقات غلط یا گمراہ کن بھی ہو سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر ’ میڈیکل انٹرنیٹ ریسرچ ‘ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی جائزے نے مارچ 2019 سے پہلے سوشل میڈیا پوسٹس پر نظر ڈالی تو پتہ چلاکہ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ صحت سے متعلق غلط معلومات تھیں۔ یہ غلط معلومات زیادہ تر سگریٹ نوشی کی مصنوعات اور ادویات کے بارے میں تھیں۔ صحت سے متعلق غلط معلومات پڑھنے والے کو خوف اور تشویش میں مبتلا کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگ صحت حاصل کرنے کے لئے غلط ذرائع کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے فیکٹ چیکنگ اور غلطیوں والی پوسٹوں کو کسی علامت کے ساتھ نشان زد کرکے غلط معلومات کے پھیلاؤ میں کمی کی جاسکتی ہے ۔

کورونا پھوٹنے کے بعد سائنس دان صارفین کی ذہنی صحت پر سوشل میڈیا کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً مختلف سوال ناموں کے ذریعے چین کے محققین نے24 مارچ سے یکم اپریل 2020 تک کالجوںکے512 طلباء کے انٹرویوز لئے اور جاننے کی کوشش کی کہ سوشل میڈیا نے اس وبا کے دوران میں ذہنی صحت کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ نتائج سے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال اور ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان ایک تعلق کا پتہ چلا۔ یعنی منفی رپورٹس اور پوسٹس بعض لوگوں میں ڈپریشن کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔

گلوبلائزیشن اینڈ ہیلتھ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سارس کوویڈ 2 کی انفیکشن سے متعلق لامتناہی خبروں اور کوویڈ 19کے نتیجے میں اموات کی رپورٹنگ نے بعض لوگوںکی ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔

صحت سے متعلق ایک ادارے کے سربراہ ’ لی چیمبرز ‘ کا کہنا ہے کہ ہم سب مختلف طریقوں سے سوشل میڈیا سے متاثر ہوئے ہیں۔ لگاتار منفی اور غلط معلومات نے گزشتہ 18 مہینوں کے دوران مسلسل خوف پھیلایا ہے۔ دوسری طرف سماجی اور سیاسی مسائل نے امید کی روشنی کو کم کیا ہے۔ ترمیم شدہ تصاویر اور زہریلا مواد منفی جذبات کو صحت مند رہنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ لائکس اور تبصروں جیسے میٹرکس کی خواہش نے مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے ذہنی صحت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ کیا ہے ۔ یقیناً سوشل میڈیا لوگوں کو دوستوں اور خاندان سے رابطے میں مدد دیتا ہے، خاص طور پر عالمی وباء کے دوران محدود میل جول اور سماجی فاصلے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رابطہ ممکن ہوا۔ تاہم سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال نے معاشرتی اضطراب اور چیلنجز کو بڑھایا ہے۔ لوگ پرفیکشن ازم اور دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے جیسے مسائل کا شکار ہوئے۔

پروفیسر سٹیون سی ہائیس، نیواڈا یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں، کہتے ہیںکہ بعض زہریلے عوامل لوگوں کے لیے خاص طور پر خطرناک بنے ہوئے ہیں جیسے کہ جسمانی و نفسیاتی مسائل ، دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرنا اور اس بنیاد پر فیصلے کرنا یا پھر الجھن کے ساتھ خود فیصلے کرنا۔ وہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ حساسیت اور سوچنے کے عمل سے پیچھے ہٹنے کے قابل نہیں ہیں ، تو جو کچھ آپ کے پاس موجود ہے اور جو کچھ واقعی آپ کے لیے اہم ہے ، کے مطابق اپنے طرزِ عمل کی تشکیل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انسانی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنجز پیدا کررہا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا کی کچھ خوبیاں بھی ہیں مثلاً اس نے انسانی شعور کو بڑھایا ہے اور یہ ہمیں زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔

سوشل میڈیا اور ذہنی صحت کی آگاہی

میڈیکل انٹرنیٹ ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں بھی بتایا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کی عالمی وباء کے دوران نفسیات پر پڑنے والے اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کی نسبت زیادہ لوگ اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں اور اس معاملے میں دوسروں کی تائید حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ذہنی صحت کی حالت بہت خراب ہوسکتی ہے۔

پروفیسر ہائیس کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 عالمی وباء نے اس خیال کو تقویت بخشی ہے کہ ذہنی صحت کے حالات صرف چند مخصوص افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ پروفیسر سٹیون سی ہائیس کا کہنا ہیکہ نفسیاتی صحت اور ذہنی لچک کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے ۔ ذہن اور رویے کی صحت اور معاشرتی طور پر اچھی زندگی گزارنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔یہ چند ایک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سب کا مسئلہ ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کیسے بہتر ہو سکتا ہے؟

نئی تحقیقات کے مطابق اگرچہ سوشل میڈیا بعض صارفین کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے، تاہم بعض پلیٹ فارمز نے مثبت تبدیلیاں لانا شروع کردی ہیں۔ مثال کے طور پر 14 ستمبر 2021 کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے صارفین کے لیے ایسے نئے فیچرزمتعارف کروائے جو خودکشی کیے ارادے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا مزید ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟

لی چیمبرز کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکوشش کر رہے ہیں کہ وہ صارفین کی ذہنی صحت اور فلاح وبہبود پر اچھے اثرات مرتب کرسکیں ۔ کئی حوالوں سے یہ کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ تاہم چیلنج یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا استعمال بذات خود ایک عادت بن جاتا ہے ، وقت کے ضیاع کا ذریعہ ، خواہ مخواہ کی مصروفیت۔ ایسا ہو تو یہ طرزعمل سوشل میڈیا کے استعمال کے مقاصدکے خلاف چلا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ذہنی صحت کی ترقی کے لئے استعمال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کرنا ہوں گے:

نیوز فیڈ کی طوالت کو محدود کیا جائے۔

نوٹیفکیشنز کے طریقے کو تبدیل کیا جائے۔

ترمیم شدہ تصاویر کی لیبلنگ کی جائے۔

ٹھوس قواعد و ضوابط متعارف کروائے جائیں اور نقصان پہنچانے والے مواد کی نگرانی کی جائے۔

ایسی تجاویز پر عمل درآمد کروائیں جو صارفین کو وقفہ دیتی ہیں۔

حقائق پر مبنی پوسٹوں کو زیادہ عام کرنے میں مدد دی جائے۔

غلط مواد شائع نہ کرنے کے لئے واضح ہدایات دی جائیں اور صارفین کو ایسی صلاحیت دی جائے کہ وہ حساس مواد کو آسانی سے کنٹرول کرسکیں۔

لی چیمبرز کے مطابق ، جب سوشل میڈیا کے استعمال کی بات ہوتی ہے تو وقت کا اعتدال ، استعمال شدہ مواد اور اس کے پیچھے موجود ارادہ فوائد حاصل کرنے اور نقصانات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ رات کو سونے کے لئے جانے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے موبائل ، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور ٹی وی سکرینز سے علیحدگی اختیار کرلی جائے، یوں پریشانی نیند پر اثر انداز نہیں ہوسکے گی۔

اسی طرح ایسے دن بھی گزارنے چاہئیں جب سوشل میڈیا بالکل استعمال نہ کیا جائے۔ اس طرح ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ لی چیمبر کا کہنا ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا کا مالک بننا چاہئے تھا لیکن وہ ہمارا مالک بن بیٹھا۔ یعنی ہمیں اسے اپنے قابو میں رکھ کر استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے ہمیں قابو کرلیا۔

پروفیسر ہائیس کا کہنا ہے کہ اگر چہ ذہنی صحت ہر کسی پرکسی حد تک اثرانداز ہوتی ہے تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سب لوگوں کو تھراپی کروانی چاہیے۔ اس کے بجائے ہم سب کو یہ بات سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی نفسیات اور رویہ کو کیسے مضبوطبنائیں اور کیسے ان میں لچک پیدا کریں۔ ایسا طرزعمل ہمیں ایک بدلتی ہوئی دنیا میں بہتر طور پر زندگی بسر کرنے کے قابل بنائے گا۔

The post کورونا میں سوشل میڈیا نے ہماری ذہنی صحت کو کیسے متاثر کیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » صحت

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں