لندن: عجیب و غریب اور لاعلاج موروثی کیفیات کے شکار ہزاروں بچوں کے تفصیلی مطالعے سے 60 نئے امراض سامنے ہیں جن کی اکثریت جینیاتی ہے۔
بچوں اوران کے والدین کا تفصیلی تقابل کیا گیا ہے جس کی تفصیلات ’نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں سامنے آئی ہیں۔ اس مطالعے کو ’ڈیسفائرنگ ڈویلپمینٹل ڈس آرڈر‘ کا نام دیا گیا ہے جو لگ بھگ دس برس تک جاری رہا۔ تحقیق میں مشہور سینگرانسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ کے دیگر اداروں نے بھی حصہ لیا ہے۔
اگرچہ سالماتی سطح پر امراض کا مطالعہ ایک طویل اور محنت طلب کام ہوتا ہے لیکن اس سے طویل فوائد سامنے آتے ہیں۔ مجموعی طور پر 13500 بچوں اور ان کے اہلِ خانہ نے اس مطالعے میں حصہ لیا جن کا تعلق برطانیہ اور آئرلینڈ سے تھا۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ جس بچے میں صرف ایک جین کا فرق یا بگاڑ بھی شدید مرض کی صورت میں نمودار ہوا۔ لیکن تمام تحقیق کے باوجود ان کے مرض کو کوئی نام نہیں دیا جارہا تھا ۔ لیکن اب تمام بچوں اور ان کے اہلِ خانہ کے ڈی این اے اور جینیاتی ڈرافٹ کی مکمل چھان بین کے بعد 5500 ایسے جین سامنے آئے جو کسی نہ کسی طرح بیماری کی وجہ بن رہے تھے۔ ان میں ایک نیا مرض ٹرن پینی فرائی سنڈروم بھی ہے۔ اس میں جسمانی بڑھوتری سست ہوتی ہے، سیکھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے اور ایک ماہ کی بچی میں ٹرن پینی فرائی سنڈروم بھی سامنے آیا ہے۔
سائنسدانوں کی ٹیم میں کی سربراہ کیرولین رائٹ نے بتایا کہ ہم نے نئے جینیاتی امراض اور کیفیات کا انکشاف کیا ہے اور اس ضمن میں 60 نئے مرض یا عارضے سامنے آئے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ہم ان بچوں کا بہتر علاج کرسکیں گے بلکہ ان کے خاندان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
Sp
The post ہزاروں لاعلاج بچوں کے جینیاتی مطالعے سے 60 نئے امراض دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت