بندریا نے کئی دن ساتھ رکھنے کے بعد اپنے مردہ بچے کو کھالیا

پراگ: جمہوریہ چیک کے چڑیا گھر میں ایک بندریا نے اپنے بچے کی لاش کو کئی دنوں تک اٹھائے رکھنے کے بعد اسے کھالیا۔ کسی بندر کے اپنی اولاد کو کھالینے کا یہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ 

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ غیر معمولی واقعہ جمہوریہ چیک کے سفاری پارک  Dvur Kralove میں پیش آیا۔ جہاں وسطی افریقا کی بندریا نے اپنے بچے کو کھالیا۔ بندریا کا تعلق مینڈریلس لیوکوفیئس نسل سے ہے۔

مینڈریلس لیوکوفیئس کو ڈرلز بھی کہا جاتا ہے جو وسطی افریقا سے تعلق رکھنے والے مینڈریل اور بابون کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ بندروں کی یہ نسل بڑے سماجی گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں، جن میں 100 افراد ہوتے ہیں اور جن کی قیادت ایک غالب مرد کرتا ہے جو نوجوان بندروں میں سے اکثریت کا باپ ہوتا ہے۔

جمہوریہ چیک کے سفاری پارک بندریا جس کا نام کماسی تھا نے اپنے مردہ بچے کو دو دن سے زیادہ عرصے تک اپنے پاس رکھا اور چڑیا گھر کے ملازمین کو بچے کو دفنانے نہیں دیا تاہم اس کے بعد بندریا نے اپنے مردہ بچے کو کھانا شروع کردیا۔

کماسی کے بچے کی لاش کو چڑیا گھر سے نکال کر دفنانے والے اہلکاروں نے بتایا کہ لاش کے کئی اعضا غائب تھے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں بھی کماسی کے اپنے بچے کو کھانے کی ویڈیو مل گئی۔

چڑیا گھر میں کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ عجیب و غریب رویہ ہے اور ہم نے اپنے پیشہ ورانہ زندگی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ یہ بہت خوفناک منظر ہے اور اس سے بچوں کی اپنے ہی والدین کے ہاتھوں نسل کشی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

تاہم لائیو سائنس کی ایک رپورٹ میں اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ بندریا نے کے اس غیر معمولی عمل سے مستقبل میں اس کے دوسرے بچے کی پیدائش کے امکانات بہتر ہوسکتے ہیں۔

سائنسی جریدے پریمیٹس میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں  کماسی کے چونکا دینے والے رویے کی ویڈیو کے تجزیے کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اس نسل کی بندر مادہ بچوں کے جنم میں ناقابل یقین تولیدی توانائی صرف کرتی ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مردار بچے کی لاش کو کھانا ایسی مادہ بندروں کو ارتقائی عمل کے طور پر حمل کے بعد توانائی بحال کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادہ بندر لاش کی باقیات کو اپنے سوا کسی اور کو ہاتھ لگانے نہیں دیتی۔

 

The post بندریا نے کئی دن ساتھ رکھنے کے بعد اپنے مردہ بچے کو کھالیا appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » دلچسپ و عجیب

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں