سنگاپور: کینسر ایک جان لیوا مرض تو ہے ہی لیکن اس کی شناخت اور شدت معلوم کرنا بھی ایک بہت مشکل امر ہوتا ہے۔ اب ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی اقسام کے سرطان کی شناخت ممکن ہوچکی ہے بلکہ کینسر کی شدت اور قسم بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔
یہ نیا طریقہ یونیورسٹی آف سنگاپور میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی کے معاون پروفیسر شاؤ ہوئیلن اور ان کے ساتھیوں نے وضع کیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو STAMP کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ’’سیکوینس ٹوپولوجی اسمبلی فار ملٹی پلیکسڈ پروفائلنگ‘‘ ہے۔ اگرچہ یہ تکنیک ابتدائی مراحل میں ہے لیکن یہ تیزرفتارعمل ہے جس سے ابتدائی درجے میں کئی اقسام کے سرطان کی معلومات اور ان کی شدت کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
اب تک کینسر سے متاثرہ حصے کا ایک چھوٹا ٹکڑا لے کر تجربہ گاہ میں اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے جسے بایوپسی کہتے ہیں۔ لیکن بایوپسی یہ نہیں بتاتی کہ کینسر کس درجے کا ہے، جس کےلیے سرجری کرکے سرطان زدہ حصہ دیکھنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی مناسب علاج شروع ہوتا ہے۔
اسی کمی کےلیے اسٹیمپ ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جو ابتدا میں ہی برق رفتاری سے سرطان کی خبر دیتی ہے۔ اس میں ’’پروگرام ایبل ڈی این اے بارکوڈ‘‘ استعمال کیے جاتے ہیں جو ایک ہی ٹیسٹ میں اربوں پروٹین مارکرز کی شناخت کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ پروٹین کی تقسیم اور فراوانی کی خبر بھی لی جاسکتی ہے۔
جب بریسٹ کینسر پر اسے آزمایا گیا تو اسٹیمپ نے اسے 94 فیصد درستگی سے شناخت کیا۔
لیکن ٹھہریئے! اس کےلیے فائن نیڈل ایسپائریشن (ایف این اے) استعمال کی گئی تھی جو بایوپسی کا سب سے ہلکا طریقہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیمپ ٹیکنالوجی کو ایک کارڈ جتنے پلاسٹک کے ٹکڑے پر سمویا جاسکتا ہے اور اس کی تیاری میں صرف 35 ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ یوں یہ سرطان کی تشخیص کا آسان اور تیزرفتار طریقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خرچ بھی ہے۔
توقع ہے کہ اگلے پانچ برس میں یہ ٹیکنالوجی مارکیٹ میں فروخت کےلیے تیار ہوجائے گی جسے ابتدائی طور پر دماغ، پھیپھڑوں اور نظامِ ہاضمہ کے سرطان کےلیے استعمال کیا جائے گا۔
The post اسٹیمپ ٹیکنالوجی: تھوڑی بایوپسی سے کینسر کی وسیع معلومات حاصل appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت