3 دسمبر کو دنیا بھر میں خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ان کے مسائل کو اجاگر کرنا اور لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔
ادارہ ایکسپریس نے اپنی روایت کو برقرا رکھتے ہوئے ہر سال کی طرح اس سال بھی ’’خصوصی افراد کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں حکومت و خصوصی افراد کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چودھری محمد اخلاق
(صوبائی وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب)
ایک سال کے اندر میںنے اپنے محکمے میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن کی ایپ اور ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جبکہ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کو بائیو میٹرک کردیا گیا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔ سپیشل ایجوکیشن پنجاب کے سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 34 ہزار تھی جو ہمارے اقدامات کے بعد 37 ہزار پر پہنچ گئی ہے۔
اسے مزید بڑھایا جائے گا۔ اس کے علاوہ خصوصی بچوں کی ٹرانسپورٹ کیلئے سکولوں کو 9نئی بسیں فراہم کی گئی ہیں جبکہ ابھی مزید دی جائیں گی۔ ہمارے تمام اداروں میں صبح کے وقت پرنسپل و دیگر سٹاف بچوں کو بسوں کے باہر ویلکم کرتا ہے جس سے بچوں کو خوشی ملتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
میں نے جب وزارت کا قلمدان سنبھالا تو معلوم ہوا کہ خصوصی بچے ہیرے ہیں جنہیں تراشنے کی ضرورت ہے۔ ان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے اور ہم ان کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔ خصوصی بچوں کے حوالے سے نیا نصاب ترتیب دیا جا رہا ہے جو ان کی معذوری کے لحاظ سے ہوگا، اس سے یقینا ان کی زندگیوں میں انقلاب آئے گا اور ان کا مستقبل روشن ہو گا۔ ہمارے تین بڑے ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ہیں، ان میں بھی تبدیلی لائی جارہی ہے۔ وہاں اب آئی ٹی و دیگر جدید کورس کروائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ خصوصی بچوں کو فارنزک سائنس کی تعلیم دی جائے گی، اس شعبے میں لاکھوں آسامیاں موجود ہیںلہٰذا خصوصی افراد اپنا روزگار کما سکیں گے۔
ملازمت و تعلیم میں خصوصی افراد کا کوٹہ 3 فیصد سے بڑھا کر 6 فیصد کیا جا رہا ہے۔ میری وزارت سے منطوری کے بعد اب یہ بل سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا دیا گیا ہے، جسے جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ 6 فیصد کوٹہ کو معذوری کی نوعیت /قسم کے لحاظ سے تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حوالے سے بھی قانون میں تبدیلی کی گئی ہے۔اب ہسپتال میں سرٹیفکیشن کے وقت سپیشل ایجوکیشن کا نمائندہ بھی موجود ہوگا تاکہ معذوری کی قسم کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سرٹیفکیٹ جاری کیا جاسکے۔
ہم معذوروں کی ملازمتوں و داخلوں کے حوالے سے سکروٹنی کرنے جا رہے ہیں تاکہ معذوروں کے کوٹہ پر کسی دوسرے شخص کی نشاندہی کی جاسکے اور معذوروں کو ان کا حق دیا جاسکے۔ تمام عمارتوں ، پارکس و دیگر مقامات تک خصوصی افراد کی رسائی انتہائی اہم ہے۔ ڈاکٹر خالد جمیل نے ناقابل رسائی عمارتوں کی فہرست کی بات کی، یہ ہمیں دیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کرکے قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ ہم خصوصی افراد کی صحت کے حوالے سے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔ معذور بچوں کے ماہانہ ’چیک اپ‘ کیلئے ریسکیو1122کی سروس فراہم کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔
ہم نے صحت مراکز میں معذور بچوں کے باقاعدہ چیک اپ شروع کروا دیا ہے تاکہ ان کی معذوری میں بہتری لائی جاسکے۔ سابق حکومت نے مردم شماری میں معذوروں کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا نہ کرکے بہت بڑی زیادتی کی۔ خصوصی افراد کے احتجاج پر مردم شماری فارم میں ایک کالم شامل کیا گیا جس میں صرف یہ درج تھا کہ گھر میں کوئی معذور ہے یا نہیں لیکن معذوری کی قسم کے حوالے سے نہیں پوچھا گیا۔
ہماری حکومت کا احساس پروگرام بہترین ہے۔ کابینہ میں جب احساس پروگرام کی بریفنگ دی گئی تو میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس معذور افراد کا ڈیٹا نہیں ہے، ہمیں معذوری کی قسم کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے۔ وہاں میری اس تجویز کو سراہا گیا لہٰذا احساس پروگرام کے تحت ہمیں فروری تک خصوصی افراد کا ڈیٹا، ان کی معذوری کی قسم کے ساتھ مل جائے گا جس کے بعد اقدامات کرنے میں بہت مدد ملے گی۔لالہ جی سعید اقبال مرزا نے لالہ موسیٰ سکول کی اپ گریڈیشن کی بات کی ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس سکول کو میٹرک تک کردیا جائے گا۔ہم خصوصی افراد کی فلاح کیلئے ہر ممکن کام کر رہے ہیں جن سے ان کی حالت میں پہلے کی نسبت بہت بہتری آئی ہے۔
اس عالمی دن کے موقع پر 3 دسمبر کو ہم الحمرا ہال لاہور میں پروگرام کرنے جارہے ہیں جس میں اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکرردگی رپورٹ پیش کروں گا۔ اس کے علاوہ 4 دسمبر کو فیصل آباد ، 5دسمبرکو ساہیوال، 11 دسمبرکو ملتان اور 12 دسمبر کو ڈیرہ غازی خان میں پروگرام کیے جائیں گے جن میں اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ خصوصی افراد کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے گا۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
اس سال خصوصی افراد کے عالمی دن کا موضوع ’’رسائی‘‘ ہے کیونکہ اگر معذور افراد کسی جگہ پہنچ نہیں پائیں گے تو وہ ترقی نہیں کر سکیں گے۔ انہیں ریلوے سٹیشن، ایئرپورٹ، ڈاک خانہ، پارک، بینک و دیگر جگہوں پر جانا پڑتا ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں یہ تمام جگہیں معذوروں کے لیے قابل رسائی نہیں ہیں۔
وہاں ریمپ نہیں ہیں، لفٹ نہیں ہوتی اور اگر ہے تو اس سے پہلے چند سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں یا عمارت میں داخلے کیلئے ہی سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ ہر معذور کا بھائی، باپ یا دوست نہیں ہوتا جو اسے ہر جگہ لے کر جائے، اسے اٹینڈنٹ کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا ان مشکلات کی وجہ سے آدھے سے زیادہ معذور کہیں نہیں جاتے ۔ ہائر ایجوکیشن کی عمارت اگر قابل رسائی نہیںہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ معذور افراد ایم اے اور ایم فل نہیں کر سکتے۔
جاپان سے معذور بچے وہیل چیئر کے ساتھ اکیلے سفر کرکے پاکستان آتے ہیں اور یہاں کے معذوروں کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہاں اتنی سہولیات ہیں کہ انہیں مشکل پیش ہی نہیں آتی مگر ہمارے ہاں سہولیات کی کمی ہے۔ حکومتوں نے معذوروں کے حوالے سے کام کیا مگر ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔
سابق دور حکومت میں یہ قانون بنایا گیا کہ کسی بھی عمارت کو جب تک معذوروں کے لیے قابل رسائی نہیں بنایا جائے گا تب نقشہ منظور نہیں ہوگا۔ ریلوے سٹیشن بھی قابل رسائی نہیں ہیں، ٹانگوں سے معذور شخص پلیٹ فارم نمبر 2 کے علاوہ کسی اور پلیٹ فارم پر نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ایل ڈی اے کی عمارت اور چڑیا گھر میں بھی سیڑھیاں موجودہیں۔ میں وزیر چودھری محمد اخلاق کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ وقت نکالیں، ہم کچھ عمارتوں کا دورہ کریں گے اور وہاں ریمپ لگوائیں گے اس کے بعد اسی طرز پر حکومت باقی عمارتوں میں کام کروا دے۔ دنیا میں معذوروں کی ترقی کے3اصول ہیں۔ پہلا رسائی، دوسرا صحت اور تیسرا تعلیم۔ اگر رسائی نہیں ہے تو معذور ہسپتال، سکول و کسی بھی جگہ نہیں جاسکتے۔
سابق حکومت نے معذوروں کیلئے کسٹم ڈیوٹی فری کار سکیم کا اعلان کیا تھا جو آج بھی برقرار ہے۔ اس کا مقصد سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنا تھا تاہم سابق حکومت نے بعدازاں یہ شرط رکھ دی کہ گاڑی درآمد نہیں کرسکتے بلکہ مقامی گاڑی خریدیں۔ سوال یہ ہے کہ اس میں کسٹم ڈیوٹی فری کہاں ہے؟ اس کے علاوہ مقامی سطح پر تو معذوروں کیلئے کوئی گاڑی تیار ہی نہیں کی گئی لہٰذا اس پرنظر ثانی کی جائے۔
میرے نزدیک یہ سہولت صرف گاڑیوں ہی نہیں بلکہ موٹر سائیکل اور ٹرائی سائیکل پر بھی دی جائے ۔ ہیلتھ کارڈ اور معذوری الاؤنس جیسے منصوبوں کے تحت معذوروں کو 3 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں جس سے انہیں ریلیف نہیں ملتا۔ اس طرح کے منصوبوں کے بجائے انہیں خودمختاری کی جانب لے جایا جائے۔ ایک معذور شخص کو موٹر سائیکل یا ٹرائی سائیکل دے دی جائے تو اس کے بیشتر مسائل حل ہوجائیں گے اور وہ اپنا روزگار بھی کما سکے گا۔ ہم معذوروں کی رسائی کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے جارہے ہیںجس سے یقینا بہتری آئے گی۔
افسوس ہے کہ معذوروں کی تعداد کے حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار نہیں ہیں۔ جب مردم شماری ہوئی تو اس وقت معذوروں کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کیلئے کوئی سوال نہیں رکھا گیا تھا اور پھر ہماری جانب سے آواز اٹھانے پر صرف ایک خانہ شامل کر دیا گیا کہ گھر میں معذور ہے یا نہیں۔ اس میں معذوری کی وجہ یا قسم شامل نہیں کی گئی۔ معذوروں کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے، اس کے بعد ہی ان کی بحالی کے حوالے سے موثر کام کیا جاسکے گا۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا
(پاکستان سپیشل پرسن اسلام آباد)
میں 1980ء سے خصوصی افراد کے حوالے سے کام کر رہا ہوں اورخود بھی معذور ہوں۔ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے کہ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں خصوصی افراد کیلئے 1 فیصد کوٹہ مختص کیا جائے تاکہ ان کی آواز کو موثر بنایا جاسکے۔ ہم نے جب یہ مطالبہ کیا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے اسے رد کر دیا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ہے اور عمران خان سب کے لیے کام کر رہے ہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ یہ کوٹہ مقرر کریں۔ اسی طرح پنجاب میں سپیشل پرسنز کی ڈسٹرکٹ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے، اس سے بھی بہتری آئے گی۔
ضلع گجرات میں کئی سکول نجی عمارتوں میں موجود ہیں جس سے لاکھوں روپیہ ضائع ہو رہا ہے جو حکومت پر بوجھ ہے، اس کا بہتر حل نکالا جائے اور قابل سٹاف بھی یقینی بنایا جائے۔ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر لالہ موسیٰ کو ہائی سکول کا درجہ دے کر میٹرک تک کردیا جائے تاکہ معذور بچے تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل روشن بنا سکیں۔ معذوروں کے لیے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 3 فیصد کوٹہ ہے جس پر عمل نہیں ہورہا، اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ تعلیم یافتہ معذور افراد کو 3 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دینا تذلیل ہے، سب کو ایک ہی صف میں کھڑا نہ کیا جائے بلکہ ان کیلئے ملازمت کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ جوٹیکنیکل کام جانتے ہیں انہیں 5 لاکھ روپے قرض حسنہ دیا جائے۔ جو معذور افراد بسترسے اٹھ نہیں سکتے انہیں 6 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ عمران خان کام کرنا چاہتے ہیں مگر بیوروکریسی رکاوٹیں ڈال رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ ان کی ٹیم اور وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن جس طرح کام کر رہے ہیں اس سے معذوروں کی حالت بہترہو گی۔
سیدہ امتیاز فاطمہ
(سماجی کارکن)
ہم نے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایسے معذور بچوں کیلئے ایک سینٹر بنایا ہے جن کے والدین و معاشرے کو معلوم نہیں کہ ان کے بہتر مستقبل کیلئے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ ہم نے ان کے لیے10 سالہ لیڈرشپ ٹریننگ پروگرام بنایا ہے لہٰذا تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہم ان کی صحت کا بھی خیال رکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے ایک ڈرامیٹک سوسائٹی بھی بنائی ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی سوسائٹی ہے جس کے سکرپٹ رائٹر، ایکٹر، ڈائریکٹر و تمام ممبران معذور ہیں۔ یہ سب اپنے مسائل پر رونے کے بجائے لوگوں کو آگاہی دیتے ہیں۔
یہ زندگی جہاد ہے، اسے ہمت سے گزارنا ہے۔ مسائل تو سب کے ساتھ ہیں مگر ان کی نوعیت الگ ہے۔ جس طرح دیگر مسائل کو حل کیا جاتا ہے اسی طرح معذور افراد کے مسائل حل کرنا بھی ضروری ہے۔ معذوروں کے لیے رسائی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اگر انہیں عمارتوں تک رسائی نہیں ہوگی تو پھر تعلیم، صحت و دیگر اقدامات کا کیا فائدہ؟ہم انکلوسیو ایجوکیشن پر کام کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر UNCRDPکے ساتھ معاہدے کے تحت ہمیں ہر سکول کو معذوروں کے لیے قابل رسائی بنانا ہے تاکہ انکلوسیو ایجوکیشن ہو۔ خصوصی افراد کیلئے خصوصی تعلیمی ادارے ہیں لیکن جب تک دیگر ادارے انکلوسیو نہیں رکھیں گے تو یہ افراد معاشرے کاحصہ کیسے بنیں گے؟ معذور افراد کو قید نہ کریں بلکہ ان کیلئے انکلوسیو معاشرہ بنائیں مگر یہاں سکول، پارک و دیگر جگہوں پر معذوروں کو الگ کر دیا جاتا ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک خصوصی افراد معاشرے کا حصہ نہیں بنیں گے تب تک ان کی زندگی میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔یہ لوگ عوام میں گھومیں گے نہیں، لوگوں کو ملیں گے نہیں تو لوگ انہیں الگ مخلوق تصور کریں گے اور سمجھیں گے کہ ان کے ساتھ زندگی گزاری ہی نہیں جاسکتی۔ خصوصی افراد وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو ایک نارمل شخص کرتا ہے۔ یہ افراد ڈاکٹر، انجینئر و دیگر شعبوں کے ماہر ہیں اور نہایت خوبصورتی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ معذور افراد کی بحالی و بہتری کیلئے نصاب میں تبدیلی چاہیے مگر افسوس ہے کہ یہاں سب کو ایک ہی نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ اگر معذوری کے لحاظ سے نصاب ترتیب دیا جائے تو ان میں نئی امنگ پیدا ہوگی اور وہ ترقی کریں گے۔
ہمارے پاس ایک چھٹی جماعت کا طالبعلم ہے جو ٹانگوں سے معذور ہے مگر ابھی سے ہی سافٹ ویئر اور گیم بنا لیتا ہے۔ اسی طرح ہمارا ایک بچہ خوبصورت ڈیزائن بناتا ہے اور وہ فیشن ڈیزائنر بننا چاہتا ہے لہٰذا ان بچوں کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ، محکمہ سپیشل ایجوکیشن، انسانی حقوق اور بیت المال، یہ چار ادارے ہیں جن میں معذوروں کے حقوق اور اختیارات بٹے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسائل حل نہیں ہو رہے اور رکاوٹیں آرہی ہیں۔ سندھ میں ایک الگ محکمہ بنا دیا گیا جو معذور افراد کے معاملات دیکھتا ہے۔
یہ اچھا قدم ہے لہذا پنجاب میں خصوصی افراد کیلئے الگ اتھارٹی بنائی جائے جن میں ان اداروں کے ساتھ ساتھ معذور افراد کو بھی نمائندگی دی جائے۔ سننے میں آرہا ہے کہ معذور افراد کیلئے ٹاسک فورس بنائی جارہی ہے، سوال یہ ہے کہ ہماری شمولیت کے بغیر وہ کس طرح ہمارے مسائل حل کرے گی؟ اگر اس ٹاسک فورس کا مقصد خصوصی افراد کے مسائل حل کرنا ہے تو پھر اس میں زیادہ سے زیادہ معذور افراد کو آگے لایا جائے،ا س سے بہترنتائج سامنے آئیں گے۔ فافن نے معذور کمیونٹی کو بلایا اور ووٹنگ میں شمولیت پر کام کیا گیا۔ پہلی مرتبہ ہم خود پولنگ سٹیشن گئے۔سیاسی جماعتوں کی میٹنگز اور جلسوں میں گئے۔
ایسا کرنے سے سیاسی جماعتوں کو معلوم ہوا کہ میٹنگز و جلسوں میں خصوصی افراد کیلئے بھی جگہ بنانی ہے۔ اس سے پہلے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ میں نے جب الیکشن کمیشن میں بطور امیدوار کاغذات جمع کروائے تو سب حیران تھے کہ اب خصوصی افراد بھی الیکشن لڑیں گے۔ ایسے اقدامات سے ہم نے ان افراد میں ایک نئی سوچ اور امنگ پیدا کرنے کی کوشش کی جو گھروں میں یہ سوچ کر بیٹھے ہیں کہ ہم کر کیا سکتے ہیں۔
اسمبلیوں میں خواتین کیلئے کوٹہ ہے ، سوال یہ ہے کیا خصوصی افراد کو ایک نشست بھی نہیں دی جاسکتی؟انہیں اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنی نمائندگی کرنے کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل اجاگر کرسکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم میں خصوصی افراد کو شامل کرنے کے بجائے ہمارے لیے ’ہاؤسنگ لون‘ قائم کیا ہے جو بہترین ہے۔ یہ قرض بینک سے ساڑھے 12 سال کیلئے ملے گا جس سے ہم اپنے گھر اپنی ضروریات کے مطابق بنا سکیں گے۔ آج چار ماہ ہوگئے ہیں، میں بینکوں میں جاکر اس سکیم کے تحت قرض کا پوچھ رہی ہوں مگر وہ قرض نہیں دے رہے۔ جواب ملتا ہے کہ معذور افراد کو قرض دینا ہمارے لیے مشکل ہے۔
انہیں ایسا لگتا ہے کہ خصوصی افراد قرض نہیں لوٹا سکیں گے حالانکہ اخوت کے ڈیٹا کے مطابق تمام افراد 99 فیصد قرض واپس کرتے ہیں جبکہ خصوصی افراد میں یہ شرح 100 فیصد ہے۔ یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ معذور افراد ذمہ دار ہیں۔ مردم شماری میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نقصانات ہم آج تک اٹھا رہے ہیں ۔ کوئی ایک کالج، یونیورسٹی ہمارے لیے قابل رسائی نہیں ہے حالانکہ اسے رسائی کے قابل بنانا مشکل کام نہیں ہے۔
اب تو پورٹیبل ریمپ ملتے ہیں جن کی لاگت 3سے 4 ہزار ہے۔ افسوس ہے کہ الیکشن کمیشن و ڈی جی ہیلتھ کے آفس میں بھی صرف سیڑھیاں موجود ہیں اور ریمپ نہیں ہے۔ معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے بھی ہمیں بہت مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں اور بارہا چکر لگانے پڑتے ہیں۔
اگر اس نظام کو آن لائن کرکے سارا عمل مکمل ہونے پر میڈیکل کیلئے بلایا جائے اور اسی دن سرٹیفکیٹ دے کر نادرا بھیجا جائے تو مشکلات کم ہوجائیں گی۔ ایک مسئلہ غور طلب ہے کہ وہیل چیئر پر موجود افراد کو ملازمتیں نہیں مل رہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اداروں میں ان کے لیے انتظامات نہیں ہیں اور وہ اپنا خرچ بچانے کیلئے انہیں ملازمت نہیں دیتے۔ ایسے افراد مشکل میں ہیں، ا ن کیلئے معاملات زندگی چلانا اور روزگار کمانا انتہائی مشکل ہے، ان کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ ’رسائی‘ کو چھوٹا مسئلہ نہ سمجھا جائے بلکہ جتنی بھی عمارتیں ہیں ان میں ریمپ و دیگر سہولیات کے لیے قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
The post خصوصی افراد کے مسائل گھمبیر۔۔۔ قوانین پرعملدرآمد یقینی بنایا جائے!! appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت