ہارورڈ: سمندر کی عجیب و غریب مخلوق آکٹوپس کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ اپنے آٹھ بازوؤں سے شکار یا غذا کو چاٹ کر اس کا ذٓائقہ محسوس کرتی ہے اور اس طرح زہریلی غذا کھانے سے بچ رہتی ہیں۔
سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس طرح کچھ آکٹوپس کے بازو گویا زبان کی طرح کام آتے ہیں اور ان سے غذا کو چاٹ کر کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کے بازوؤں کے اندرونی طرف نرم ابھاریا سکرس ہوتے ہیں جو چپکنے کا کام کرتےہیں۔ ان کے اندر اعصابی خلیات کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ایک جانب تو یہ خود اس مخلوق کو احساس دلاتے ہیں اور دوسری جانب بتاتے ہیں کہ آیا غذا اس کے لیے بہتر ہے یا مضر اور زہریلی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے نکولس بیلونو نے کہا ہے آکٹوپس بغیر دیکھے شکار کرتی ہیں اور پتھروں کے یا سوراخوں کے اندر اپنے بازو ڈال کر شکار کو پکڑتی ہیں۔ نکولس اور ان کے محقق ساتھیوں نے کیلیفورنیا ٹو اسپاٹ آکٹوپس کا خردبینی اور سالماتی سطح پر جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے پانی کے اندر کچھ سکرس چھونے اور کچھ غذا کا ذائقہ معلوم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان خلیات کی عصبی کنارے آخرکار سوچنے اور محسوس کرنے کے نظام تک جاتے ہیں۔
اس کے بعد الیکٹروفزیالوجی کے عمل کا جائزہ لیا اور ان کے سامنے مختلف اقسام کے ذائقے اور بو شامل کی گئیں۔ یہاں تک کہ پانی میں حل ہوجانے والے کڑوے مرکب ’کلوروکوائن‘ پر بھی آکٹوپس نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ آکٹوپس سمیت کئی سمندری جانوروں میں پانی کے اندر سونگھنے کے اعضا ہوتے ہیں۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ آکٹوپس اپنے باوؤں کے اندرونی حصے سے اپنے شکار کا ذائقہ بھی محسوس کرتی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ اس کے منہ میں زبان جیسا ایک عضو ’ریڈیولا‘ یہ کام کرتا ہے لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ریڈیولا ذائقہ معلوم نہیں کرتا بلکہ دانتوں کا کام کرتے ہوئے غذا کے ٹکڑے کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اب ماہرین مان چکے ہیں کہ بازوؤں کے اندر موجود سکرس سے آکٹوپس اپنی خوراک کا احساس کرتی ہیں۔
The post آکٹوپس اپنی بازؤوں سے کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.