ذہنی آلودگی، تجارتی اداروں کی لامحدود ہوس زر کا شاخسانہ

عصرِ حاضر میں ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جو سند یافتہ اور برانڈڈ اشیاء کو معیاری قرار دیتا ہے، جہاں علم اور صلاحیت کی پہچان اور اہمیت بھی اسی صورت میں ہوتی ہے، جب کسی صاحبِ اختیار کی طرف سے اس کی تصدیق کی جائے۔ اس معاشرے میں وہ شخص قابلِ تقلید سمجھا جا رہا ہے جو برانڈڈ اشیاء استعمال کرنے پر قادر ہے۔

ماضی میں اشیاء کا حسن اور اہمیت قدرتی ہونا سمجھا جاتا تھا، اب اشیاء مصنوعی طریق سے ایجاد کی جاتی ہیں اور برانڈز کے تحت متعارف کرائی جاتی ہیں۔ کوئی بھی شخص چاہے چمگادڑ کی طرح نظر آتا لباس پہن لے، چاہے مینڈک کی طرز پر برہنہ ہو جائے، کتے کی طرح بھونکنا شروع کر دے، بھوتوں کی طرح چیخے یا بدروحوں کی مانند کوسنے دے اور پھر کہے کہ یہ برانڈڈ موسیقی ہے تو معاشرہ اسے بسر و چشم قبول فرمانے کو تیار ہوجاتا ہے۔

عصرِ حاضر میں ہمیں شخصیات بھی برانڈڈ دستیاب ہیں، جن کے پاس بذاتِ خود کوئی قابلِ تعریف صلاحیت نہیں ہوتی، ان کے نامور ہونے کی بنیاد محض تفریحی صنعت کے ناخداؤں کی ہدایات سے موافقت اور ان کے ہاتھوں میں پتلی تماشا کرنے تک محدود ہے۔

دورِجدید کا ایک اور میلان کثیر الملکی کمپنیوں کی جانب سے پوری دنیا میں ایک جیسی مصنوعات عام کرنے کا بھی ہے۔ ہر ملک کے لوگوں کو اس امر سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ان کی سرزمین کا قدرتی حسن اور بے ساختہ پن ان ’’ عظیم ‘‘ سند یافتہ کمپنیوں کے تجارتی مقاصد کی نذر ہونے جا رہا ہے۔ جی ہاں ! سادہ اور معصوم قدرتی زندگی بہت جلد برانڈڈ مصنوعی زندگی سے بدلی جانے والی ہے اور اس تجارتی چھاپ کی آلودگی کی فضا میں ہماری آنے والی نسلوں کو جھونکا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سوچ، ہمارے رویے اور اقدار کیوں ان سند یافتہ تجارتی کمپنیوں پر مبنی مصنوعی دنیا کی طرف سے دولت بڑھانے کے طریقوں پر مبنی ہدایات کے تابع ہوں؟

میں چاہوں تو کم سے کم قیمت جوتا اور چشمہ خریدوں تا کہ میں سڑک کنارے ٹھیلا لگا کر روزی کمانے والے مزدور کی روزانہ کی کمائی میں اپنا حصہ ڈال سکوں، میں کیوں نام نہاد برانڈڈ چیزیں خرید کر عظیم سند یافتہ تجارتی اداروں کے خزانوں کے صندوق مزید بھروں اور ان کے پوری دنیا پر قابض ہونے کے اختیارات اور کوششوں کو بڑھاوا دوں؟ اگر میں کم قیمت اشیاء استعمال کروں، اس اعتماد کے ساتھ کہ میں نے خود کو اس برانڈ نامی آلودگی کی فضا سے آزاد اور محفوظ رکھا ہوا ہے تو کیا اس سے میری شخصیت کی خوبیاں ماند پڑ جائیں گی؟ کیا بحیثیت انسان میری وقعت تب ہی ہو گی، جب میں مہنگے داموں خریدی گئی اشیاء استعمال کروں؟

کہا جاتا ہے کہ عظیم یونانی فلسفی سقراط وقتاً فوقتاً بازار جایا کرتا تھا، اس کے بازار جانے کا مقصد خریداری کرنا نہیں بلکہ یہ جائزہ لینا ہوتا تھا کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں جو خریدنے کو لوگ پاگل ہو رہے ہیں اور وہ ان سب چیزوں کے بغیر بھی بھر پور اور مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ اکثر اوقات وہ بغیر کچھ خریدے اس اطمینان کے ساتھ واپس ہوتا کہ بازار میں فروخت ہونے والی بہت سی اشیاء کے بغیر بھی وہ ایک آرام دہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہا ہے۔

موجودہ دنیا میں پائی جانے والی آلودگی کی دو بنیادی اقسام جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا، مادی آلودگی اور ذہنی آلودگی  ہیں ۔ مادی سطح پر ہم جب خوراک کھاتے ہیں تو جسم اس خوراک کو ہضم کر لیتا ہے، اس میں غذائی ضرورت کے مادے کو جذب کر لیتا ہے اور غیر ضروری مواد کو خارج کر دیتا ہے۔

اسی طرح ہم آکسیجن سانس کے ذریعے اندر کھینچتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ یہ نظام اخراج ہر فرد کی حیاتیات کا حصہ ہے۔ قدرتی ترتیب میں، انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تجارتی بنیادوں پر استواری سے پہلے، آلودگی سے قدرت تمام مخلوقات کی چْست شراکت داری اور متوازن ماحولیاتی نظام کے تحت نمٹتی تھی لیکن آج تمام دوسری مخلوق کی سرگرمیوں پر انسانی سرگرمیاں حاوی ہو چکی ہیں، جن کی وجہ سے حیاتیاتی نظام مکمل طور پر غیر متوازن ہو چکا ہے۔

مثال کے طور پر، برانڈڈ اشیاء خوبصورت اور دیدہ زیب طریقے سے بند کر کے صارف کو پیش کی جاتی ہیں تاکہ بظاہر دل فریب نظر آتی اشیاء کی خریداری کے لئے لوگوں کو اْکسایا جا سکے۔ خریداری کے بعد چیز تو استعمال کر لی جاتی ہے اور خوبصورتی سے بند کر کے پیش کرنے میں لگنے والا سارا مواد کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ ناقابل استعمال اشیاء اور پیکنگ کے لیے استعمال ہونے والا مواد محکمہ صفائی کے اہلکار اکٹھا کرتے ہیں اور آبادی سے دور لے جا کر ضائع کرتے ہیں تا کہ انسانوں اور رہائشی علاقوں کو اس آلودگی سے محفوظ رکھا جا سکے۔

یہی معاملہ ذہنی آلودگی کا بھی ہے، تفریحی صنعت اور عالمی مواصلاتی نظام کے ذریعے ہمارے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا ہے۔ ہم ایسے صارف ہیں جن کے دماغوں میں مسلسل عالمی معاشرے کے اذہان کے ساتھ صف بہ صف کھڑے ہونے کا احساس زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے. ذہنی آلودگی کی یہ خوراک بھی خوبصورت اور پر کشش ذہنی مراعات کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، جو اصل میں تو بے فائدہ ہوتی ہیں، لیکن انسان کے ذہن کو ایسے اپنے غلبے میں لے لیتی ہیں کہ ان سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہوتا. صارف کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان اشیاء اور مراعات کو استعمال کرے.

آج کے جدید معاشرے میں اقدار اور اخلاقیات کو فرسودہ قرار دیا جا رہا ہے اور انہیں محض نصابی کتب تک محدود سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح مذہبی اقدار بھی ایسی غیر قانونی نصیحت بنتی جا رہی ہیں، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم زور پڑ رہی ہیں. حالانکہ صدیوں سے انسان معاشرتی روایات اور مذہبی اقدار کے ذریعے ہی اپنی صلاحیتیں معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کرتا رہا ہے، لیکن اب وہی آزادی اور ترقی کے راستے کی رکاوٹ سمجھی جا رہی ہیں۔ انسانی رویے کی رہنمائی کرنے کے بجائے مذہب سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے نظریات آزادی کے خواہاں لوگوں کی سوچ اور رویے کے مطابق بدل دیئے جائیں۔

آج سے چند سال پہلے تک، سترہ سالہ نوجوان لڑکا بھی ڈریکولا طرز کی کوئی فلم دیکھ کر سونے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا لیکن آج چار سال اور اس سے بھی کم عمر کے بچے ڈریکولا سے بھی ڈراؤنی فلمیں دیکھ کر بالکل نارمل ہوتے ہیں، بلکہ بعض کو ایسی فلمیں دیکھے بغیر نیند نہیں آتی۔ ہماری نسل کے لوگ بچپن میں ڈھانچے، کھوپڑی یا دل میں پیوست خنجر جس سے خون ٹپک رہا ہوتا تھا، طرز کی تصاویر دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ دور جدید کے چھوٹے بچے بھی ایسی قمیض پہننا پسند کرتے ہیں جس پر ایسی ہولناک دکھائی دیتی تصاویر ہوں اور ایسے ہی خوفناک نشانات وہ اپنے جسم پر بھی گْدواتے ہیں۔

اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ آج کل کے بچے زیادہ بہادر ہو گئے ہیں بلکہ درحقیقت ان کے دل اس قدر سخت اور ٹھٹھرا گئے ہیں کہ انہیں احساس تک نہیں ہے کہ ایسی تصاویر اور فلمیں برے افراد کی حرکتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہم ہر جگہ ایسی تصویری نمونے دیکھتے ہیں جو ہوس، دہشت، تشدد اور موت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مخفی، جادوئی، شیطانی اور جرائم پیشہ افراد کے کرداروں کی خصوصیات کو فنون لطیفہ کا شاہ کار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جدید معاشرے میں سائنس اور شیطانی قوتوں کا باہم اشتراک چل رہا ہے۔

وہ فلمیں جن میں سائنسی مہارتی آلات اور مافوق الفطرت کردار ہوتے ہیں، بہت کامیاب ہو رہی ہیں، ان کی تشہیر اس طرز سے کی جاتی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی اذہان کو اپنے قبضے میں لے رہی ہیں۔ سائنس اللہ کی طرف سے انسانیت کے لئے تحفہ ہے، لیکن انسان تمام سائنسی اور تکنیکی علوم، دریافتوں اور ایجادات کو شیطان سے منسوب کرنے میں منہمک ہے۔ یہ ایک مہلک نتیجے کا ایک سادہ سا نفسیاتی خاکہ ہے۔ ماضی میں مذہبی علماء  کو انسانی اور آزادی کے راستے کی رکاوٹ سمجھا جاتا تھا، لیکن آج علماء  سے روا رکھی جانے والی ناپسندیدگی، خدا کے ساتھ ناپسندیدگی میں بدلی جا رہی ہے اور شیطان کو روشنی کا نمائندہ اور نجات دہندہ سمجھا جانے کی طرف لوگوں کے ذہنوں کو بڑی مہارت سے موڑا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فنون لطیفہ ہوں، جسم گدوانا ہو، ملبوسات ہوں، گاڑیاں ہوں، دیواری فن پارے ہوں، ہر جگہ اس مہلک نجات دہندہ کی علامات اور نشانیاں عام کی جا رہی ہیں۔ شیطان کے تمام خاکے اور علامات جدید اور مقبول فنون لطیفہ کا حصہ بن چکی ہیں اور یہ چیز معاشرے کی اخلاقی بغاوت کو ظاہر کر رہی ہے۔ اس طرح معاشرے کی ذہنی فضا، ذہنی کوڑا کرکٹ کے ذریعے آلودہ کی جا رہی ہے جس سے ذہنی صحت اور معاشرتی انتشار کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

نہ کوئی حکومتی لائحہ عمل ایسا ہے اور نہ ہی انتظامی سطح پر اس ذہنی کچرے کو جمع کر کے ضائع کرنے کا کوئی نظام ہے، نتیجتاً یہ تمام کچرا لوگوں کے ذہنوں کو متعفن کر رہا ہے۔ معاشرہ ذہنی آلودگی کی جس کثافت سے گزر رہا ہے، اس میں بہت ضروری ہے کہ معاشرتی اقدار اور مذہبی تعلیمات و اخلاقیات کو تعلیمی نظام کا مضبوط حصہ بنایا جائے۔ بنی نوع انسان کے لیے اقدار کے بغیر بقا ممکن نہیں ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی یہ اقدار فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر لوگوں کے ذہن اس تصور پر یکجا کر دئیے گئے مذہب، اخلاق اور اقدار غیر ضروری ہیں تو لازم ہے کہ وہ طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار بن کر رہ جائیں گے۔

The post ذہنی آلودگی، تجارتی اداروں کی لامحدود ہوس زر کا شاخسانہ appeared first on ایکسپریس اردو.



شکریہ ایکسپریس اردو » صحت

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

ویب سائٹ کے بارے میں