نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ساٹھ فی صد ویکسی نیشن والے شہروں سے پابندیاں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے، ملک بھر میں ان تمام سہولیات کا تسلسل مکمل ویکسین لگوانے اور ماسک کے لازمی استعمال سے مشروط ہے ۔ وفاقی وزیر اسد عمر کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں ویکسی نیشن میں کارکردگی دکھانے والے شہروں میں معاملات زندگی درجہ بدرجہ معمول پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ انتہائی خوش کن اور حوصلہ افزا خبر ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلائو میں کمی عوام کے ویکسین لگوانے میں دلچسپی اور تعاون اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سامنے آرہی ہے ، معمولات زندگی بحال ہونے جارہے ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان بھر میں ڈنگی کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے باعث اسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔
پچھلے برسوں میں بھی ڈنگی کی تباہ کاریاں بہت زیادہ رہی ہیں، ان دنوں بھی ملک بھر میں ڈنگی کے مرض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ صوبہ پنجاب خاص طور پر اس کا دارالحکومت لاہور ، صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں ڈنگی کا شکار ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسپتالوں نے مزید مریضوں کو لینے سے انکار کردیا ہے۔ پنجاب کے اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے بستر ڈنگی کے متاثرین کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں ڈنگی کے کیس کے خطرناک حد تک جا پہنچنے کے بعد انسداد ڈنگی مہم شروع کی گئی ہے۔
طبی ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے ہی کورونا کی وبا نے عام آدمی کی کمر توڑ رکھی ہے، علاج معالجہ مہنگا ہے، ادویات کی قیمتیں بلند ہیں، جب گھر میں کوئی بیمار اور بھوکا ہو تو پھر اس کی سوجھ بوجھ ختم ہو جاتی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اب تک ساڑھے تین سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ادویات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، لوگ علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے صحت کی سہولتیں عوام کی رسائی سے دور ہو گئی ہیں۔ پاکستان میں ہیلتھ ایجوکشن کا فقدان ہے ملک کو صحت عامہ کے حوالے سے بے شمار مسائل درپیش ہیں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی اتائیت کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اشیاء خورونوش میں بڑھتی ہوئی خطرناک ملاوٹ سے پاکستان میں ہر سو تیزی سے پھیلنے والے لاتعداد متعدی امراض لمحہ فکریہ ہیں۔ ادویات یا تو جعلی ہیں یا پھر انتہائی ناقص لیکن حکومت کا اس طرف کوئی دھیان نہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، ادویات کی قیمتیں کم کرنے پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
پچھلے دنوں 35 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے کچھ دن بعد ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 150 فیصد مزیداضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کا غریب طبقہ ادویات کی قیمتیں ادا کرنے سے قاصر ہے، جس میں شوگر و کینسر سمیت زیادہ تر ادویات جان بچانے والی ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کے بعد بیشتر ادویات ڈرگ اسٹورز اور مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ عمل ایک معمول بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈنگی کا ٹیسٹ پرائیوٹ لیب سے 750 روپے میں ہورہا ہے اور اگر مریض کو مزید تفصیلات درکار ہوں تو وہ ٹیسٹ 2900 روپے کا ہے، اگر پلیٹ لیٹس لگوانے ہیں تو کراس میچ سمیت دیگر ٹیسٹوں پر اٹھنے والا خرچہ لگ بھگ 31 ہزار کا ہے۔
طبی سہولتوں کی عدم فراہمی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے ، دوسری جانب پاکستان میں متعدد بیماریوں کا پھیلائو جاری ہے ، اور ان کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔ ملک میں سالانہ چونسٹھ لاکھ بچے جنم لیتے ہیں، جن میں سے 4لاکھ 29ہزار بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں دیکھ پاتے اور یہ مائوں کی گود میں دم توڑ دیتے ہیں۔
انھیں میں سے 2لاکھ 90ہزار 393بچے پہلے ہی مہینے میں دم توڑ جاتے ہیں، پاکستان میں ایک ماہ میں کم عمر ی میں جاں بحق ہونے والے بچوں کا تناسب عالمی معیار سے کہیں زیادہ ہے بلکہ شرمناک حد تک زیادہ ہے اس کی کئی وجوہات ہیں 40فیصد بچے پری میچور پیدائش کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔21 فیصدبرتھ Acphyxyaایکسپسویا اور 18فیصد انفیکشن کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ ایک سال سے کم عمر بچوں میں سے 60فیصد تو ان پیدائشی امراض کی وجہ سے دنیا چھوڑ دیتے ہیں جن کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں جب کہ مزید17.7فیصد نمونیا اور 11.3فیصد ڈائریا کے باعث مرتے ہیں۔
بڑی تعداد میں اسہال اور ملیریا سے مرنے والے بچے ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے اسہال اور ملیریا کی بیماریوں پر کوئی کنٹرول نہیں ان دونوں امراض سے مرنے والے بچوں کا تناسب 1لاکھ 30ہزار کے لگ بھگ ہے جو عالمی تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال 1لاکھ 48ہزار سرطان کے نئے مریض سامنے آتے ہیں، تاہم مریضوں کی اصل تعداد کا کوئی پتہ نہیں اس بارے میں بھی ہمارے پاس جامع اور قابل اعتماد اعداد و شمار کا فقدان ہے۔
پاکستان میں سرطان کی سب سے عام وجہ پھیپھڑوں اور منہ کا سرطان ہے۔ ان دونوں کا تعلق سگریٹ نوشی سے ہے، لیکن سگریٹ نوش ہیں کہ کچھ سننے کو تیار نہیں۔ ان کے خیال میں موت تو برحق ہے زندگی کے غموں کو سگریٹ کے مرغولوں میں اڑایا جاسکتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ سگریٹ تو جل کر دھوئیں میں بدل جاتی ہے مگر انسانی پھیپھڑوں پر بھی ایسے داغ چھوڑ دیتی ہے جو اسے وقت سے پہلے فرشتہ اجل کے حوالے کر دیتی ہے۔
عالمی اداروں اور خود مقامی ماہرین کے مطابق ہیپا ٹائٹس کے پھیلائو کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ طبی آلات کا صحیح طریقے سے جراثیموں سے پاک نہ ہونا، سرنجوں کا دوبارہ استعمال اور گندا پانی اس کی بڑی وجوہات ہیں اور یہی دراصل اس کے انفیکشن کا بڑا سبب ہے۔ بریسٹ کینسر پاکستان میں عام ہے یہ ہر سال 40ہزار خواتین کی جانیں لے لیتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت اس کے پھیلائو کے بارے میں کئی مرتبہ خبردار کر چکا ہے۔ خطرے کی گھنٹیاں ہمارے ذہنوں میں گونج رہی ہیں۔ سرطان کی ایک قسم اب بچوں کو بھی معاف نہیں کر رہی اور نوجوان بچیاں بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 10کروڑ خواتین میں سے کم و بیش 1کروڑ خواتین کا اپنی زندگی میں ایک مرتبہ کینسر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یعنی ہر 10ویں عورت یا بچی کینسر کا شکار بن سکتی ہے چنانچہ کینسر پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بیماریوں کا پھیلائو جاری ہے لیکن ان کی روک تھام کے لیے کوئی منصوبہ بندی حکومتی سطح پر نظر نہیں آتی ہے ۔
دوسری جانب ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور ایکس چینج ریٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچنے کے بعد عام آدمی سخت مشکلات سے دوچار ہے۔ پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں، جس سے مزدور طبقہ زیادہ متاثر ہو رہا ہے، اس محدود آمدنی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے نہ صرف پسماندہ بلکہ متوسط طبقوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
پٹرول اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عام طور پر مہنگائی میں اضافے سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں پٹرولم مصنوعات یا ڈالر کی قیمت بڑھی، دودھ، دہی، گھی، تیل، دال سمیت بیشتر اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ سامنے آیا۔ صرف دال مونگ ہی ڈھائی سو روپے کلو ہے، اگر ہم آدھا کلو دال پکائیں تو باقی گھی، تیل، نمک، مرچ بھی چاہیے، روٹی کے لیے آٹا بھی پچھتر روپے فی کلو ہے، غریب آدمی کے لیے تو دو وقت کی روٹی، کھانا مشکل ہوگیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق رواں مالی سال حکومت نے پٹرولیم لیوی کا ہدف چھ سو ارب روپے رکھا ہے جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ساتھ ہی یہاں ڈالر کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے، اس لیے حکومت کو بھی مہنگا تیل خریدنا پڑ رہا ہے، جہاں تک ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بات ہے تو ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہے، اگرچہ ہماری ترسیلات زر اور برآمدات چار ارب ڈالر ماہانہ سے زائد ہیں، لیکن معاشی بحالی کے نتیجے میں درآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے، ساتھ ہی افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بھی ڈالر کی طلب اور قیمت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس وقت مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے ، اور تاحال حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے ، دوسری جانب صحت کا شعبہ مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے ، جس کی وجہ علاج و معالجے کی سہولتیں ملک میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں ۔ عام آدمی کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے ، ہم ارباب اختیار سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے مسائل کا حل نکالنے کی اپنی مخلصانہ کوششوں کو بروئے کار لائیں۔
The post ملک میں طبی سہولتوں کی عدم فراہمی appeared first on ایکسپریس اردو.
شکریہ ایکسپریس اردو » صحت